سورة الإسراء - آیت 74

وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے تجھے ثابت قدم رکھا تو بلاشبہ یقیناً تو قریب تھا کہ کچھ تھوڑا سا ان کی طرف مائل ہوجاتا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٣] کفار مکہ کی آپ سے سمجھوتہ کی کوششیں :۔ کفار مکہ نے جب دیکھا کہ ان کی مقدور بھر کوششوں کے باوجود اسلام پھیلتا ہی جارہا ہے۔ تو انہوں نے کئی بار آپ سے باہمی سمجھوتہ کی کوششیں کیں۔ ایک دفعہ یہ پیش کش کی اگر آپ ہمارے بتوں سے متعلقہ آیات پڑھنا چھوڑ دیں تو ہم آپ کے مطیع بننے کو تیار ہیں۔ لیکن آپ ان کی یہ بات کیسے مان سکتے تھے؟ اور ایک دفعہ یہ پیشکش کی کہ اگر آپ حکومت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا حاکم بنانے پر تیار ہیں۔ اگر مال و دولت چاہتے ہیں تو تمہارے قدموں میں مال و دولت کے ڈھیر لگا دیتے ہیں اور اگر آپ کو کسی عورت سے محبت ہے تو ہم اس سے آپ کی شادی کردیں گے بشرطیکہ آپ جو دعوت پیش کر رہے ہیں اس سے باز آجائیں۔ گویا ان کے خیال کے مطابق ایک عام انسان کا منتہائے مقصود یہی تین چیزیں ہوسکتی ہیں۔ جو انہوں نے پیش کردیں۔ اور یہ پیش کش آپ کے ہمدرد و غمخوار اور سرپرست چچا ابو طالب کی موجودگی میں کی گئی۔ چونکہ سب سرداران قریش مل کر آئے تھے اس لیے ابو طالب کے پائے استقلال میں بھی لغزش آگئی اور وہ بھی آپ کو سمجھانے لگے۔ یہ معاملہ دیکھ کر آپ روپڑے اور اپنے چچا سے کہنے لگے ’’چچا جان! اگر ان لوگوں میں اتنی طاقت ہو کہ وہ میرے ایک ہاتھ پر سورج لا کر رکھ دیں اور دوسرے پر چاند لاکر رکھ دیں تب بھی میں اس کام سے باز نہیں آسکتا۔ یا تو یہ کام پورا ہو کے رہے گا یا پھر میری جان بھی اسی راہ میں قربان ہوگی‘‘ بھتیجے کا یہ استقلال دیکھ کر چچا کی بھی ہمت بندھ گئی اور کہنے لگا’’بھتیجے جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرتے جاؤ۔ جب تک میں زندہ ہوں تمہاری حمایت پر کمر بستہ رہوں گا‘‘ چنانچہ قریشیوں کا وفد ناکام اٹھ کر چلا گیا۔ ان آیات میں ایسے ہی واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے تمہیں جو استقلال کی توفیق ہوئی تو یہ اللہ کی طرف سے ہی تھی اور اگر اللہ کی طرف سے ایسی توفیق نصیب نہ ہوتی تو آپ کچھ نہ کچھ تھوڑا بہت ان کی طرف جھک بھی سکتے تھے۔ اگر ایسی صورت پیش آجاتی تو کفار مکہ تو تم سے ضرور خوش ہوجاتے اور وہ تمہیں اپنا دوست بھی بنا لیتے مگر اللہ کی طرف سے آپ کو نبی ہونے کی بنا پر اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دوہرا عذاب پہنچ سکتا ہے۔ اپنے نبی کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق اور مہربانی سے حق و باطل کی اس آمیزش سے بچا لیا۔ اب یہ تمام تر عتاب ان مسلمانوں کے لیے ہے جو محض چند ٹکوں کی خاطر حق و باطل میں سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔