وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اور اللہ کو چند گنے ہوئے دنوں میں یاد کرو، پھر جو دو دنوں میں جلد چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو تاخیر کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، اس شخص کے لیے جو ڈرے اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک تم اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے۔
[٢٧٢۔ ا] ایام معدودات سے مراد ماہ ذی الحجہ کی گیا رہ، بارہ اور تیرہ تاریخ ہے۔ ان دنوں میں بکثرت اللہ کو یاد کرتے رہنا چاہیے۔ رمی جمار کے وقت بھی بآواز بلند تکبیر کہی جائے اور تمام حالات میں بھی بازاروں میں چلتے پھرتے وقت بھی اور ہر نماز کے بعد بھی اور تکبیر کے الفاظ یہ ہیں۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر (تین مرتبہ) (لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد) ایام تشریق اور تکبیریں:۔ عیدین کی تکبیریں بھی یہی ہیں اور ایام تشریق میں بھی یہی بآواز بلند کہتے رہنا چاہیے۔ ایام تشریق کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ یہ کھانے پینے اور ذکر الٰہی کے دن ہیں۔ تکبیرات کے شروع اور ختم کرنے میں اگرچہ اختلاف ہے۔ تاہم صحیح اور راجح یہی بات ہے کہ ذی الحجہ کی ٩ تاریخ ( عرفہ یا حج کے دن) کی صبح شروع کر کے تیرہ تاریخ کی عصر کو ختم کی جائیں۔ اس طرح یہ کل تئیس نمازیں بنتی ہیں۔ ہر نماز کے بعد کم از کم تین بار اور زیادہ سے زیادہ جتنی اللہ توفیق دے۔ بآواز بلند تکبیرات کہنا چاہئیں۔ رمی جمار کا عمل تین دن یعنی ذی الحجہ کی ١٠، ١١، ١٢ کو ہوتا ہے۔ دس ذی الحجہ کا دن تو حجاج کے لیے بہت مصروفیت کا دن ہوتا ہے۔ اس کے بعد تین دن منیٰ میں ٹھہرنا مسنون ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص اس سے پہلے جانا چاہے تو وہ دوسرے دن بھی جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے دل میں تقویٰ ہو اور حج کے تمام مناسک ٹھیک طور پر بجا لانے کا ارادہ رکھتا ہو۔