وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَىٰ بَعْضٍ ۖ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
اور تیرا رب ان کو زیادہ جاننے والا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور بلاشبہ یقیناً ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت بخشی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔
[٦٧] انبیاء کی فضیلت کے پہلو :۔ اس فضیلت کے بھی کئی پہلو ہیں مثلاً کسی نبی کی دعوت کا کام زیادہ بار آور ثابت ہوا، کسی کا کم، کسی نے صرف تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا، کسی نے جہاد بھی کیے کسی کو کوئی معجزہ دیا گیا تو دوسرے نبی کو کوئی دوسرا دیا گیا۔ کچھ نبیوں نے تنگدستی اور فقیری میں ہی زندگی گزار دی اور کچھ ساتھ ہی بادشاہ بھی تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ [٦٨] بادشاہ بھی نبی ہوسکتا ہے تو ایک عام آدمی کیوں نبی نہیں ہوسکتا ؟ اس مقام پر بالخصوص سیدنا داؤد علیہ السلام کا ذکر کرنے کی دو وجوہ معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ داؤد علیہ السلام اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، پست قد تھے اور حقیر سمجھے جاتے تھے۔ بکریاں چرایا کرتے تھے مگر جو قیمتی جوہر ان میں موجود تھے انھیں اللہ ہی جانتا تھا۔ لہٰذا اللہ نے انھیں صرف نبی ہی نہیں بنایا بلکہ صاحب کتاب نبی بنایا پھر بادشاہت بھی عطا فرمائی۔ یہ ہے اللہ کی دین اور اللہ کا فضل کہ جس پر اس کی نظر انتخاب پڑتی ہے اسے نوازتا ہے۔ اور جتنا چاہے نوازتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مشرکین مکہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ تو ہمارے ہی جیسا انسان ہے جو ہماری طرح کھاتا پیتا، چلتا پھرتا اور شادیاں کرتا ہے اور صاحب اولاد ہے۔ یہ تو طالب دنیا ہے لہٰذا یہ خدا رسیدہ یا اللہ کا پیغمبر کیسے ہوسکتا ہے۔؟ گویا ان کے نظریہ کے مطابق خدا رسیدہ یا پیغمبر ہونے کے طالب دنیا ہونے کے بجائے تارک دنیا ہونا ضروری تھا۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ میں رہبان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک عام انسان یا طالب دنیا کے متعلق تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ نبی نہیں ہوسکتا تو ایک بادشاہ کے متعلق تم کیا سوچ سکتے ہو جو عام انسانوں سے بہت زیادہ دنیا میں پھنسا ہوا، طالب دنیا اور اللہ سے نسبتاً دور ہوتا ہے؟ پھر جب ہم نے داؤد بادشاہ کو بھی نبوت عطا کی اور صاحب کتاب نبی بنایا تھا تو پھر آخر یہ نبی آخرالزمان کیوں نبی نہیں ہوسکتا ؟