رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ ۖ إِن يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ أَوْ إِن يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْ ۚ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا
تمھارا رب تمھیں زیادہ جاننے والا ہے، اگر وہ چاہے تو تم پر رحم کرے، یا اگر چاہے تو تمھیں عذاب دے اور ہم نے تجھے ان پر کوئی ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا۔
[٦٦] کوئی شخص کسی کو نجات اخروی کی ضمانت نہیں دے سکتا :۔ ہم یوں تو کہہ سکتے ہیں جو اللہ کے فرمانبردار ہیں وہ جنت میں اور نافرمان دوزخ میں جائیں گے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں (معین) شخص جنت میں یا دوزخ میں جائے گا۔ نہ ہی اپنے متعلق کوئی شخص ایسا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ کوئی فرقہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ اس لیے کہ ہر ایک کی حقیقت حال اور اس کا انجام صرف اللہ ہی کو معلوم ہے حتیٰ کہ نبی آخر الزمان بھی کسی کی ہدایت اور اخروی نجات کے ضامن نہیں ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا خارجہ بن زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ام العلاء ایک انصاری عورت تھی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ مہاجرین قرعہ سے ہم انصار کو بانٹ دیئے گئے۔ ہمارے حصہ میں عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ آئے۔ ہم نے انھیں اپنے گھروں میں اتارا۔ پھر وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوئے جن میں ان کی وفات ہوگئی۔ جب انھیں غسل دیا اور کفن پہنایا گیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے کہا ’’اے ابو السائب (یہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی کنیت تھی) اللہ تم پر رحم کرے۔ میں یہ گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تم کو عزت دی۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ’’ (ام العلاء ) تجھے کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے اسے عزت دی؟“ میں نے کہا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ آپ پر قربان ہو، پھر اللہ کس کو عزت دے گا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عثمان فوت ہوگیا اور اللہ کی قسم! میں اس کے حق میں بھلائی کی امید رکھتا ہوں اور اللہ کی قسم! میں حتمی طور پر یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں“ام العلاء کہنے لگیں کہ اللہ کی قسم! اس کے بعد میں کبھی کسی کی بزرگی بیان نہیں کروں گی۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب الدخول علی المیت بعد الموت۔۔)