وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
[٢٧٢] جامع دعا:۔چونکہ دنیا پہلے ہے اور آخرت بعد میں۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے دنیا کا پہلے ذکر فرمایا۔ گویا مومن کو دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ سے بھلائی مطلوب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی۔ پھر بھلائی کے لفظ میں جو وسعت ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں یہ دعا بہت جامع قسم کی دعا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کے دوران طواف کرتے وقت اور دوسرے اکثر اوقات میں بھی یہی دعا فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) ایک دنیادار اور مومن کےمقاصد زندگی کاتقابل:۔ان دو آیات میں ایک دنیا دار اور ایک مومن کے مقاصد زندگی کا تقابل پیش کیا گیا ہے جو شخص آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتا۔ اس کی زندگی کا تمام تر مقصد مفادات دنیا کا حصول ہوتا ہے۔ اس کی تمام کوششیں اسی مقصد میں صرف ہوجاتی ہیں لیکن اسے ملتا اتنا ہی ہے جتنا اللہ نے اس کے مقدر کر رکھا ہے اور یہی کچھ اس کا حصہ ہے۔ آخرت میں اگر اس کے کچھ نیک اعمال تھے بھی۔ تو اس کا اسے کچھ اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ اس کے مقابلہ میں مومن کا مقصد اگرچہ مفادات اخروی کا حصول ہوتا ہے اور وہ اسے مل بھی جائے گی۔ لیکن دنیا کی زندگی کے مفادات بھی اس کے لیے ممنوع نہیں، بلکہ اس میں سے بھی اتنا حصہ اسے ضرور ملے گا جتنا اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں کر رکھا ہے۔ لہذا اس کی دعا کا انداز ہی یہ ہوتا ہے کہ اپنے پروردگار سے دنیا بھی طلب کرتا ہے اور آخرت کے مفادات بھی۔ لہذا ایسے ہی لوگ بہرحال فائدہ میں رہتے ہیں۔