وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
اور تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر کبھی تیرے پاس دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ ہی جائیں تو ان دونوں کو ’’اف‘‘ مت کہہ اور نہ انھیں جھڑک اور ان سے بہت کرم والی بات کہہ۔
[٢٣] اسلامی معاشرہ کے لئے چودہ بنیادی احکام تورات کی تعلیم کا خلاصہ :۔ اس آیت سے لے کر آگے پندرہ سولہ آیات میں ایسے بنیادی اصول و احکام بیان کیے جارہے ہیں جو ایک اسلامی معاشرہ کی تعمیر کے لیے بنیاد کا کام دیتے ہیں۔ اور جن پر مستقبل قریب میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جانے والی تھی۔ گویا یہ اسلامی ریاست کا دستور اساسی تھا جس کا مکہ کی آخری زندگی میں ہی اعلان کردیا گیا تھا کہ اس نئی ریاست کی بنیاد کن کن نظری، اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تورات کی ساری تعلیم کا خلاصہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بیان فرما دیا ہے۔ [٢٤] توحید کا فیصلہ اللہ نے کب کیا تھا ؟ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کب کیا تھا ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ اس وقت ہی کردیا تھا جب سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کرکے اس کی پشت سے پیدا ہونے والی تمام روحوں کو نکال کر اپنے سامنے حاضر کیا اور پوچھا تھا’’کیا میں تمہارا پروردگار نہیں؟‘‘ تو سب نے جواب دیا تھا ’’کیوں نہیں۔ ہم اس کا اقرار کرتے ہیں‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’میں یہ اقرار تم سے اس لیے لے رہا ہوں مبادا تم قیامت کو یوں کہنے لگو کہ شرک تو ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے اور ہم تو اس سے بے خبر تھے‘‘ (٧: ١٧٢، ١٧٣) اسی عہد کا خلاصہ اس جملہ میں آگیا ہے یعنی اقرار ایک تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے موجود ہونے پر تھا اور دوسرے اس بات پر کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں بنایا جائے گا۔ دنیا کے مذاہب توحید پرست ہمیشہ موجود رہے ہیں اگرچہ کم کیوں نہ ہوں :۔ اعتقادی لحاظ سے انسان دو قسموں میں بٹا ہوا ہے ایک وہ فریق ہے جو سرے سے ہی اللہ کے وجود کا قائل نہیں جیسے دہرئیے اور نیچری وغیرہ۔ دوسرے وہ جو کسی نہ کسی مذہب کے پیروکار اور اللہ کی ہستی کے قائل ہیں۔ اس لحاظ سے پہلی قسم کے لوگ تھوڑے ہیں اور اکثریت ایسی ہی رہی ہے جو اللہ کے وجود کی قائل رہی ہے۔ پھر یہ دوسرا گروہ یعنی اللہ کی ہستی کے قائل لوگ دو قسموں میں بٹ گئے۔ ایک وہ جو اللہ کو مانتے بھی ہیں مگر ساتھ ساتھ اس کے شریک بھی بنائے جاتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو توحید پر قائم رہے۔ ان میں اکثریت پہلی قسم کے لوگوں کی ہے اور توحید پرست کم ہی رہے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ انسان اس کی ہستی کا قائل بھی ہو اور اس کے ساتھ شرک بھی نہ کرے۔ اب جن لوگوں نے اللہ کی ہستی کا انکار کیا انہوں نے بھی اللہ سے کیے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کی اور جنہوں نے شرک کیا انہوں نے بھی خلاف ورزی کی۔ باقی تھوڑے ہی لوگ بچتے ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کیا۔ اور اللہ کے فیصلے کے مطابق زندگی بسر کی اور وہ صرف توحید پرستوں کا قلیل سا طبقہ دنیا میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور تاقیامت موجود رہے گا تاکہ لوگوں پر ہر وقت اتمام حجت ہوسکے۔ چنانچہ سورۃ یوسف کی اس آیت ﴿ وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ باللّٰہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ ﴾ میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ [٢٥] والدین سے بہتر سلوک اور ادائیگی حقوق :۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ متصل والدین کا ذکر فرمایا۔ پھر یہ نہیں فرمایا کہ والدین کے حقوق ادا کرو بلکہ یوں فرمایا ان سے بہتر سلوک کرو اور یہ تو واضح ہے کہ بہتر سلوک میں حقوق کی ادائیگی کے علاوہ اور بھی بہت کچھ آجاتا ہے۔ اسی طرح احادیث صحیحہ میں شرک کے بعد دوسرے نمبر پر عقوق والدین کو گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ہے اور عقوق کے معنی عموماً نافرمانی کرلیا جاتا ہے حالانکہ عقوق کا معنی ہر وہ فعل ہے جس سے والدین کو ذہنی اور روحانی اذیت پہنچے۔ مثلاً والدین کی طرف بے توجہی بالخصوص اس وقت جبکہ وہ بوڑھے اور توجہ کے محتاج ہوں۔ یہ بات نافرمانی کے ضمن میں نہیں آتی مگر عقوق کے معنی میں ضرور آجاتی ہے اسی لیے قرآن نے ہر مقام پر والدین سے احسان یا بہتر سلوک کا ذکر فرمایا۔ [٢٦] والدین سے حسن سلوک کی وجوہ :۔ جب والدین بوڑھے ہوں اور کما بھی نہ سکتے ہوں اور ان کی اولاد جوان اور برسر روزگار ہو۔ تو والدین کئی لحاظ سے اولاد سے بہتر سلوک کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اولاد ان سے مالی تعاون کرے اور ان کے نان و نفقہ کا انتظام کرے۔ دوسرے یہ کہ والدین کی محبت تو اپنی اولاد سے بدستور قائم رہتی ہے مگر اولاد کی محبت آگے اپنی اولاد کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اس لیے اولاد اپنی اولاد کی طرف متوجہ رہتی ہے اور والدین کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس عمر میں والدین کو اولاد سے زیادہ خاصی توجہ، محبت اور الفت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیسرے یہ کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے طبعی طور پر چڑچڑا سا ہوجاتا ہے اور اولاد چونکہ اب ان کی طرف سے بے نیاز ہوچکی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ والدین کی باتیں برداشت کرنے کے بجائے انھیں الٹی سیدھی باتیں سنانے لگتی ہے انھیں وجوہ کی بنا پر اولاد کو یہ تاکید کی گئی کہ ان سے بات کرو تو ادب کے ساتھ اور محبت و الفت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر بات کرو۔ جس سے انھیں کسی قسم کی ذہنی یا روحانی اذیت نہ پہنچے۔