وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ۗ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ
اور بلاشبہ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بے شک وہ کہتے ہیں اسے تو ایک آدمی ہی سکھاتا ہے، اس شخص کی زبان، جس کی طرف وہ غلط نسبت کر رہے ہیں، عجمی ہے اور یہ واضح عربی زبان ہے۔
[١٠٨] کسی عجمی سے قرآن سیکھنے کا جواب :۔ اس سلسلے میں کفار مکہ متعدد عجمی غلاموں کے نام لیتے تھے جو تورات اور انجیل کی تعلیم سے واقف تھے۔ جب کبھی کافروں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت اسلام کے لیے ان کے پاس گئے یا وہ غلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو کافروں نے مشہور کردیا کہ یہ نبی تو فلاں آدمی سے سابقہ امتوں کے قصے اور کہانیاں سنتا ہے۔ پھر ہمیں سنا دیتا ہے۔ حالانکہ وہ عجمی غلام اپنی زبان میں توبات کرسکتے تھے۔ عربی ٹھیک طرح بول بھی نہ سکتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کا یہ جواب دیا کہ قرآن کی زبان تو اس قدر فصیح و بلیغ ہے کہ اس کی نظیر لانے سے تم عربی لوگ اپنی فصاحت و بلاغت پر فخر کرنے کے باوجود قاصر ہو تو بھلا ایک عجمی شخص یہ کلام کیسے سکھلا سکتا ہے جبکہ وہ خود عربی ٹھیک طرح بول بھی نہیں سکتا اور چند ٹوٹے پھوٹے جملے بول کر اپنا کام چلاتا ہے۔ اور اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر وہ عجمی غلام اتنا ہی بڑا عالم تھا تو اس نے یہ کلام خود اپنی طرف سے کیوں نہ پیش کردیا۔ یا کم از کم اسے اس زمانہ میں نامور تو ضرور ہونا چاہیے جبکہ ان کی گمنامی کا یہ حال ہے کہ کافر ان تین چار غلاموں میں سے کسی ایک کا نام تک متعین نہ کرسکے کہ وہ کون تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سکھلا جاتا تھا۔