قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
کہہ دے اسے روح القدس نے تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے، تاکہ ان لوگوں کو ثابت قدم رکھے جو ایمان لائے اور فرماں برداروں کے لیے ہدایت اور خوش خبری ہو۔
[١٠٦] روح القدس سے مراد؟ پاکیزہ روح یا پاکیزگی کی روح اور اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں جو ہر طرح کی بشری کمزوریوں سے پاک ہیں۔ وہ نہ خائن ہیں نہ کذاب ہیں اور نہ مفتری۔ نہ وہ اللہ کے نازل کردہ کلام میں سے کچھ حذف کرتے ہیں اور نہ اس میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ نہ ترمیم و تنسیخ کرسکتے ہیں بلکہ اللہ کا کلام جوں کا توں نبی کے دل پہ نازل کرتے ہیں۔ [١٠٧] نزول قرآن میں تدریج کے فائدے :۔ قرآن اتارنے میں جو حالات کے تقاضوں کے تحت تدریج کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس کے دو بڑے فائدے ہیں ایک یہ کہ تکرار احکام سے ایمان میں بتدریج پختگی واقع ہوتی رہتی ہے اور ان میں ثبات و استقلال پیدا ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ جو کفار مکہ آئے دن مسلمانوں پر ناجائز مظالم اور سختیاں کرتے رہتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو بھی بار بار تسلی دینے، مصائب میں ثابت قدم رہنے۔ اس دنیا میں بھی سیدھی راہ پر گامزن رکھنے پر اور مصائب کی برداشت پر اور جنت کی خوشخبری دینے کی ضرورت پیش آتی رہی۔ (احکام میں تدریج اور تبدیلی کے سلسلہ میں سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٠٦ کا حاشیہ بھی ملاحظہ فرمالیجئے)