إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
بے شک اللہ عدل اور احسان اور قرابت والے کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
[٩٣] اس آیت میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور تین باتوں سے منع کیا گیا ہے اور یہ چھ الفاظ اس قدر وسیع المعنی ہیں کہ ساری اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ان میں آگیا ہے۔ اسی لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر قرآن میں کوئی آیت نہ ہوتی تو صرف یہی آیت انسان کی ہدایت کے لیے کافی تھی۔ اور سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسی آیت کو سن کر میرے دل میں ایمان راسخ ہوا اور میرے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت جاگزیں ہوئی۔ اس آیت کی اسی جامعیت کی وجہ سے خلیفہ راشد سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے اسے خطبہ جمعہ میں داخل کرکے امت کے لیے اسوہ حسنہ قائم کردیا اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ان اوامر و نواہی پر عمل کیا جائے تو معاشرہ کی اخلاقی، معاشرتی اور معاشی حالت بہترین بن سکتی ہے۔ اس تمہید کے بعد اب ہم ان الفاظ کی مختصر تشریح پیش کرتے ہیں : ١۔ عدل کے معنی :۔ عدل میں دو بنیادی معنی پائے جاتے ہیں (١) توازن و تناسب کو قائم رکھنا، (٢) دوسرے کو اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دینا (الفروق اللغویہ از ابو ہلال عسکری) اور اس روایت بالعدل قامت السمٰوت والارض (یعنی زمین و آسمان عدل کے سہارے قائم ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کے سیاروں میں اس قدر توازن و تناسب اور ہم آہنگی ہے کہ اگر ان کی کشش اور حرکت میں ذرا بھی کمی بیشی ہوجائے تو زمین اور آسمان ایک دوسرے سے ٹکرا کر کائنات کو فنا کردیں۔ اور عدل کا اطلاق ظاہری اور باطنی سب امور پر یکساں ہوتا ہے۔ (فقہ اللغۃ ١٩٤ از ثعالبی) قرآن کریم کی درج ذیل آیت پہلے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔ ﴿الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰیکَ فَعَدَلَکَ ﴾ (۷:۸۲)جس نے تجھے پیدا کیا اور (تیرے اعضاء) کو ٹھیک کیا اور (تیرے قدو قامت اور مزاج) کو معتدل رکھا۔ پھر اسی پہلے معنی کے لحاظ سے دو مزید معنی بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ (١) برابری کے معنوں میں جیسے ارشاد باری ہے : ﴿أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا ﴾(۹۵:۵) یا کفارہ دے جو مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے یا اس کے برابر روزے رکھے اور (٢) عوض، بدلہ یا معاوضہ کے معنی ہیں جیسے ارشاد باری ہے : ﴿وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ ﴾(۴۸۲)نہ اس سے سفارش قبول کی جائے گی اور نہ ہی اس سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا۔ اور عدل کا دوسرا بنیادی معنی کسی کو اس کا جائز حق دینا ہے اور یہ کام کسی ملک کی عدلیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں جو عدل کا معنی انصاف کیا جاتا ہے۔ یہ عدل کا مفہوم ادا نہیں کرتا۔ انصاف کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک چیز کی ملکیت کے دو دعویدار ہیں تو اس چیز کو ان میں آدھا آدھا بانٹ دیا جائے جبکہ عدل کا مفہوم یہ ہے کہ فریقین کے بیان سن کر عدالت تحقیق کرے کہ اس میں فلاں فریق کا کچھ حق ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے تو کتنا ہے؟ اگر ایک فریق کا حق صرف پانچواں حصہ ہے تو اسے اتنا ہی دلائے۔ اور اگر ایک فریق کا کچھ بھی حق نہیں بنتا تو اسے کچھ بھی نہ دلائے۔ درج ذیل آیت اسی معنی میں ہے : ﴿اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی ﴾(۸:۵) عدل کیا کرو، یہی بات تقویٰ سے قریب تر ہے۔ ٢۔ احسان کے معنی : احسان کا معنی ہر نیک اور اچھا کام ہے خواہ اس کا تعلق اپنی ذات سے ہو یا کسی دوسرے سے (فقہ اللغہ ١٥٨ از ثعالبی) اور یہ لفظ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ہر بھلائی کے کام پر بولا جاتا ہے اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ کسی کام کو بہتر سے بہتر طریقہ سے بجا لایا جائے۔ چنانچہ حدیث جبریل میں ہے کہ جبریل نے آپ سے پوچھا کہ احسان کیا چیز ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم یہ ضرور سمجھے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے اور عبادت کا مفہوم صرف فرضی یا نفلی نماز ادا کرنا نہیں۔ بلکہ جو کام بھی اللہ کا حکم سمجھ کر بجا لایا جائے وہ اس کی عبادت ہے اور کام کو خوشدلی کے ساتھ اور اچھے طریقہ سے بجا لانے کا نام احسان ہے۔ اس لحاظ سے کسی جانور کو ذبح کرتے وقت چھری کو خوب تیز کرلینا بھی احسان ہے تاکہ ذبیحہ کو کم سے کم تکلیف پہنچے۔ عدل اور احسان میں فرق :۔ عدل اگرچہ بذات خود ایک اعلیٰ قدر ہے مگر احسان کا درجہ عدل سے بھی بڑھ کر ہے۔ عدل اور احسان کے فرق کو ہم ایک معمولی سی مثال سے سمجھائیں گے۔ مثلاً ایک دکاندار سودا دیتے وقت ترازو کی ڈنڈی بالکل سیدھی رکھ کر چیز تولتا ہے اور کوئی ہیرا پھیری نہیں کرتا تو یہ عدل ہے اور اگر کچھ جھکتا تول کر دے یعنی زیادہ دے دے یا قیمت طے کرلینے کے بعد کچھ مزید رعایت کر دے تو یہ احسان ہے جسے دوسرے لفظوں میں ایثار بھی کہا جاسکتا ہے مگر اس مثال سے عدل اور احسان کے صرف ایک پہلو کا فرق نمایاں ہوتا ہے۔ احسان کے معاشرتی زندگی میں اثرات :۔ جس معاشرہ میں عدل قائم ہو گو اس میں ایک دوسرے کے حقوق غصب نہیں ہوتے تاہم کچھ کشمکش ضرور باقی رہتی ہے۔ لیکن جس معاشرہ میں احسان رواج پا جائے یا الفاظ دیگر ہر شخص اپنے حق سے کچھ کم پر قانع ہوجائے تو ایسے معاشرہ میں نزاع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں محبت، الفت اور اخوت جیسی بلند اقدار فروغ پانے لگتی ہیں۔ نیز ان دونوں الفاظ کا اطلاق عقائد، اعمال، عبادات، اخلاق، معاملات اور جذبات سب باتوں پر ہوتا ہے۔ ٣۔ قریبی رشتہ داروں کو دینا :۔ عدل و احسان کا سلوک تو قریبی رشتہ داروں سے بھی ہوگا تاہم ان کے حقوق عام لوگوں سے زیادہ ہیں۔ اور یہ بڑا طویل باب ہے جس میں والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے حقوق اور ان سے بہتر سلوک سب کچھ شامل ہے۔ اور اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ ہر خاندان کے خوشحال افراد کو اس بات کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں۔ اس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص تو عیاشی کی زندگی بسر کر رہا ہو اور اسی خاندان میں اس کے اپنے بھائی بند روٹی کپڑے تک کو محتاج ہوں۔ اور جس معاشرہ کے خوشحال افراد اپنی اس ذمہ داری کو سنبھال لیں اس کے متعلق آپ خود اندازہ فرما لیجئے کہ اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوشحالی، معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اور اخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی و بلندی پیدا ہوجائے گی۔ اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہیں : ١۔ فحاشی کے کام : فحشاء فحش کے معنی ہر وہ قول یا فعل ہے جو قباحت اور برائی میں حد سے بڑھا ہوا ہو (مفردات) اور اس لفظ کا اطلاق عموماً ایسے اقوال و افعال پر ہوتا ہے جو زنا یا اس جیسی دوسری شہوانی حرکات کے قریب لے جاتے ہوں نیز سب بے حیائی کے کام اور اقوال اس میں شامل ہیں۔ مثلاً برہنگی، عریانی، لواطت، محرمات سے نکاح، تہمت تراشی، گالیاں بکنا، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے اور ڈرامے اور فلمیں، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کا منظر عام پر آنا، مردوزن کا آزادانہ اختلاط، عورتوں کا سٹیج پر ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمائش سب کچھ فحشاء کے زمرہ میں آتا ہے۔ ٢۔ منکرات کیا ہیں : منکر کچھ برے کام ایسے ہیں جن سے شریعت نے بالوضاحت منع کردیا ہے۔ وہ تو بہرحال منکرات میں شامل ہیں ہی مگر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں شریعت خاموش ہوتی ہے لیکن کسی خاص ملک یا کسی خاص معاشرہ میں وہ معیوب اور برے سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے کام اس خاص ملک یا معاشرہ میں تو منکر ہوتے ہیں مگر دوسرے ملک یا معاشرہ میں انھیں منکر نہیں کہا جاسکتا۔ (منکر کی ضد معروف ہے) اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ہمارے ہاں اپنے سے بڑے یا بزرگوں کو جی یا صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے لیکن عرب میں نہ ایسا دستور ہے اور نہ ہی اس بارے میں شریعت کا کوئی حکم ہے لہٰذا بڑوں کو ادب سے یا جی یا صاحب کے لقب سے یا واحد کے بجائے صیغہ جمع حاضر مخاطب میں بلانا معروف ہے اور اگر کوئی تو کہہ کر پکارے تو یہ منکر ہے۔ اسی طرح قبلہ کی طرف پاؤں پھیلا کر بیٹھنا یا لیٹنا ہمارے ہاں منکر ہے اور اسے برا اور معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ شریعت اس بارے میں خاموش ہے اور کئی ممالک کے لوگ اسے منکر نہیں سمجھتے نہ اسے معروف سمجھتے ہیں۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو منکرات سے بھی منع کرتا ہے۔ ٣۔ بغی کے مختلف مفہوم :۔ ١۔ بغی کے معنی کسی چیز کی طلب اور خواہش کے حصول میں مناسب حد سے آگے نکل جانا۔ اپنے حق سے کچھ زیادہ وصول کرنے کی کوشش کرنا اور اسی نسبت سے دوسروں کا حق دبانا، اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنا، نافرمانی کرنا، دوسروں کے جان و مال یا آبرو پر ناحق دست درازی کرنا، قانون شکنی کرنا، سرکشی کرنا وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ معروف لفظ بغاوت بھی اسی سے مشتق ہے۔ الغرض اگر ان مندرجہ بالا تین قسم کی برائیوں سے اجتناب کیا جائے تو ایسا معاشرہ ہر قسم کی قباحتوں اور برائیوں سے مہذب اور پاک صاف ہوجاتا ہے۔