وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
اور جس دن ہم ہر امت میں ان پر انھی میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور تجھے ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی، اس حال میں کہ ہر چیز کا واضح بیان ہے اور فرماں برداروں کے لیے ہدایت اور رحمت اور خوش خبری ہے۔
[٩٠] آپ کا دوسرے صحابہ سے قرآن سننا :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ ’’مجھے قرآن سناؤ‘‘ میں نے عرض کی۔ بھلا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا سناؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر تو قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ٹھیک ہے، مگر دوسرے سے سننا مجھے اچھا لگتا ہے‘‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے سورۃ نساء پڑھنا شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا ﴿فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰوُلاَءٍ شَھِیْدًا﴾(۴:۴۱) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بس کرو‘‘ میں نے دیکھا تو اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی :۔ سورۃ نساء کی آیت نمبر ٤١ اور سورۃ نحل کی اس آیت کا مضمون ایک ہی ہے۔ البتہ الفاظ کا اختلاف اور تقدیم وتاخیر ضرور ہے ان دونوں آیات میں ھولاء کا مشار الیہ دوسرے انبیاء بھی ہو سکتے ہیں۔ اور گواہی یہ دینا ہوگی کہ آیا واقعی ان سابقہ انبیاء نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ اس مطلب کے لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوئی اور اسی فرط مسرت و انبساط سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگے کہ یہ آپ پر اللہ کا کتنا بڑا فضل ہے اور اگر ھولاء کا مشارٌ الیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگوں کو سمجھا جائے جو اس وقت موجود تھے تو یہ ایک بڑی گرانبار ذمہ داری بن جاتی ہے کہ آپ ان کے اچھے اور برے سب اعمال پر گواہی دیں خصوصاً اس صورت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر بڑے مہربان تھے۔ اسی خیال سے آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ نیز ھٰوُلاَءِ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ لوگ بھی مراد لیے جاسکتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے لے کر قیامت تک پیدا ہوں گے۔ اور ان لوگوں پر آپ گواہی دیں گے کہ جنہوں نے قرآن کو پس پشت ڈال رکھا تھا۔ انہوں نے قرآن کو محض ایک عملیات کی کتاب سمجھ رکھا تھا۔ جلسے جلوسوں کا افتتاح تو تلاوت قرآن سے ہوتا تھا اس کے بعد انھیں قرآن کے احکام سے کوئی غرض نہ ہوتی تھی۔ یا ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے قرآنی آیات واحکام کو سمجھنے کے بعد محض دنیوی اغراض یا فرقہ وارانہ تعصب کے طور پر ان کی غلط تاویل کرتے تھے۔ ان سب لوگوں کے خلاف اللہ کے ہاں یہ گواہی دیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ جیسا کہ سورۃ فرقان کی آیت نمبر ٣٠ سے واضح ہے۔ [٩١] قرآن میں تفصیل کس قسم کی ہے :۔ چونکہ قرآن کریم کا موضوع بنی نوع انسان کی ہدایت ہے لہٰذا یہاں ہر چیز سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو انسان کی ہدایت سے تعلق رکھتی ہو۔ یعنی اس میں تمام اچھے اور برے اعمال اور ان کی جزا و سزا کی خبر دی گئی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دنیا جہان کے علوم و فنون اس میں آگئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی تفصیلات بھی موجود ہیں جیسا کہ اکثر حضرات اپنے اپنے علوم و فنون کو بہ تکلف قرآن کریم کی طرف منسوب کرنے کی کوشش فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں اگر کوئی بات طب، جغرافیہ یا تاریخ یا ہیئت کی آگئی ہے تو وہ ضمناً ہے ایسے علوم بیان کرنا قرآن کا اصل مقصد نہیں۔ نیز قرآن میں جو چیزیں مذکور ہوئی ہیں ان میں سے بعض کی تو تفصیل بھی قرآن میں آگئی ہے۔ بعض اجمالاً بیان ہوئی ہیں۔ ان کی تفصیل قرآن کے بیان یا آپ کی سنت سے ملتی ہے۔ حتیٰ کہ بیشتر ارکان اسلام تک قرآن میں اجمالاً بیان ہوئے ہیں۔ اور ان کی پوری تفصیل احادیث میں مذکور ہے اور ان قرآنی احکام پر عمل صرف اس صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ احادیث سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ اس سے ایک اہم نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جو لوگ احادیث کے منکر ہیں یا حدیث کو حجت تسلیم نہیں کرتے وہ فی الحقیقت صرف حدیث کے نہیں بلکہ قرآن کے بھی منکر ہوتے ہیں۔ پھر جو مسائل نئے پیدا ہوں اور کتاب و سنت میں مذکور نہ ہو۔ علمائے امت کا فرض ہے کہ وہ کتاب و سنت کو پیش نظر رکھ کر اجتہاد و استنباط کے ذریعہ ایسے مسائل کا حل دریافت کریں اور اجتہاد کرنا بھی سنت نبوی ہے اور سنت نبوی سے ثابت ہے اور یہ دونوں چیزیں بھی قرآن کے تبیان میں شامل ہیں اس طرح قرآن سے ہر شرعی مسئلہ میں تاقیامت رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ [٩٢] قرآن کے تین فائدے :۔ قرآن کریم مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اس لحاظ سے ہے کہ اس میں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق تفصیلی احکام و ہدایات موجود ہیں حتی کہ مابعد الطبیعات کے متعلق بھی ہمیں بیش قیمت معلومات بہم پہنچاتا ہے اور ان ہدایات و احکام پر عمل پیرا ہونے سے انسان کی دنیوی زندگی بھی قلبی اطمینان و سکون سے بسر ہوتی ہے اور اخروی زندگی بھی سنور ہوجاتی ہے اور خوشخبری اس لحاظ سے ہے کہ فرمانبردار بندوں کو شاندار مستقبل اور جنت کی دائمی اور لازوال نعمتوں کی بشارت دیتا ہے۔