وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ ہی کے پاس ہے اور قیامت کا معاملہ نہیں ہے مگر آنکھ جھپکنے کی طرح، یا وہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
[٧٨] قیامت کا دفعتاً واقع ہونا :۔ یہاں درمیان میں مشرکوں کے ایک سوال کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا جارہا ہے۔ وہ اکثر یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ قیامت کب یعنی کتنے سال بعد اور کس مہینہ کی کون سی تاریخ کو آئے گی؟ اور اس کا جواب بھی کئی پہلوؤں سے مذکور ہوچکا ہے۔ یہاں جس پہلو کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی تمام تر اشیاء اور وہ واقعات اور حوادثات جو ماضی میں واقع ہوچکے ہیں یا اس وقت ہو رہے ہیں یا مستقبل میں پیش آنے والے ہیں۔ وہ غائب تو تمہاری نظروں اور علم سے ہیں۔ اللہ کے لیے یہ سب باتیں ایسے ہی ہیں جیسے وہ اس کے سامنے موجود اور حاضر ہیں۔ اسی طرح قیامت کا بھی اسے پورا علم ہے اور وہ جانتا ہے کہ اسے کب واقع کرنا ہے۔ تم بس ایک بات سمجھ لو کہ قیامت ایسے نہیں آئے گی کہ تم اسے دور سے آتا دیکھ لو تو سنبھل جاؤ اور تو بہ تائب کرلو۔ بلکہ قیامت جب آئی تو آنکھ جھپکنے جتنی بھی دیر نہ لگے گی کہ وہ واقع ہوجائے گی۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’دو آدمی کپڑا بچھائے سودا بازی کر رہے ہونگے اور ابھی وہ اس سودابازی اور کپڑا لپیٹنے سے فارغ نہ ہوں گے کہ قیامت آ جائے گی اور ایک اونٹنی کا دودھ لے کر جارہا ہوگا اور ابھی یہ اسے پینے نہ پائے گا کہ قیامت آجائے گی اور ایک آدمی اپنا حوض لیپ پوت رہا ہوگا لیکن ابھی نہ اس میں پانی بھرا جائے گا اور نہ پیا جائے گا کہ قیامت آجائے گی۔ اور ایک آدمی کھانے کا نوالہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور ابھی اس نے وہ منہ میں نہ ڈالا ہوگا کہ قیامت آجائے گی۔‘‘ (بخاری، کتاب الرقاق۔ باب بلاعنوان۔ نیز کتاب الفتن۔ باب بلاعنوان)