ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
پھر ہر قسم کے پھلوں سے کھا، پھر اپنے رب کے راستوں پر چل جو مسخر کیے ہوئے ہیں۔ ان کے پیٹوں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں، اس میں لوگوں کے لیے ایک قسم کی شفا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً ایک نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
[٦٧] شہد کے چھتے اور مکھیوں میں نظم وضبط :۔ ایک مکھی ان مکھیوں کی سردار یا ان کی ملکہ ہوتی ہے جسے عربی میں یعسوب کہتے ہیں۔ باقی سب مکھیاں اس کی تابع فرمان ہوتی ہیں مکھیاں اسی کے حکم سے رزق کی تلاش میں نکلتی ہیں اور اگر وہ ان کے ہمراہ چلے تو سب اس کی پوری حفاظت کرتی ہیں اور ان میں ایسا نظم و ضبط پایا جاتا ہے جسے دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اتنے چھوٹے سے جاندار میں اتنی عقل اور سمجھ کہاں سے آگئی۔ مکھیاں تلاش معاش میں اڑتی اڑتی دوردراز جگہوں پر جا پہنچتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھلوں، پھولوں اور میٹھی چیزوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہیں۔ پھر یہی رس اپنے چھتہ کے خانوں میں لاکر ذخیرہ کرتی رہتی ہیں اور اتنی سمجھدار ہوتی ہیں کہ واپسی پر اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔ راستے میں خواہ ایسے کئی چھتے موجود ہوں وہ اپنے ہی چھتہ یا گھر پہنچیں گی۔ گویا ان مکھیوں کا نظم و ضبط، پیہم آمدورفت، ایک خاص قسم کا گھر تیار کرنا، پھر باقاعدگی کے ساتھ اس میں شہد کو ذخیرہ کرتے جانا، یہ سب راہیں اللہ نے مکھی کے لیے اس طرح ہموار کردی ہیں کہ اسے کبھی سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا ﴾ اور ذلول کا معنی کسی چیز کا اپنی سرکشی کی خو کو چھوڑ کر خوشی سے اطاعت پر آمادہ ہوجانا، مطیع و منقاد ہوجانا یا رام اور مسخر ہوجانا ہے اور ذُلُلاً کو اگر راہوں کی صفت تسلیم کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ مکھی کے لیے یہ راہیں خواہ کس قدر دور دراز ہوں یا پر پیچ ہوں وہ سب راہیں اللہ نے اس کے لیے نرم اور آسان بنا دی ہیں۔ اور اگر اس لفظ کو مکھی کی صفت قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہوتا کہ جو طور طریقے تیرے لیے اللہ نے مقرر کر رکھے ہیں برضاء و رغبت ان پر عمل پیرا رہ۔ اور بعض اس کا یہ مطلب بتاتے ہیں کہ چھتہ کے خانوں تک پہنچنے کے لیے چھتہ پر پہنچ کر اپنے پروں کو سمیٹ لے۔ پھر شہد رکھنے کے بعد اسی طرح پر سمیٹے ہوئے چھتہ سے باہر نکل آ۔ [٦٨] شہد میں شفا اور دوسری خصوصیات :۔ شہد کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ زرد، سفیدی مائل یا سرخی مائل یا سیاہی مائل۔ اور ان رنگوں کے بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ تاہم ہر قسم کے شہد میں چند مشترکہ خواص ہیں۔ سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ بہت سی بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتا ہے الا یہ کہ مریض خود سوء مزاج کا شکار نہ ہو جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگا ’’میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس کو شہد پلاؤ‘‘ وہ دوبارہ آکر کہنے لگا ”یارسول اللہ ! شہد پلانے سے تو اس کا پیٹ اور خراب ہوگیا“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کا قول سچا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ جاؤ اسے پھر شہد پلاؤ‘‘ اور تیسری بار آیا اور کہنے لگا ’’میں نے شہد پلایا لیکن اسے اور زیادہ پاخانے لگ گئے ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا’’اللہ نے سچ کہا اور تیرے بھائی کے پیٹ نے جھوٹ کہا‘‘ اس نے پھر شہد پلایا تو وہ تندرست ہوگیا۔ (بخاری، کتاب الطب۔ باب الدواء بالعسل) ٢۔ نیز عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تین چیزوں میں شفاء ہے۔ شہد پینے میں، پچھنے لگانے میں اور آگ سے داغ دینے میں، مگر میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب الطب، باب الشفاء فی ثلاثۃ) اللہ تعالیٰ کے محیر العقول کارنامے :۔ شہد کی دوسری اہم خاصیت یہ ہے کہ جو اشیاء شہد میں رکھی جائیں وہ بڑی مدت تک اس میں برقرار و بحال رہتی ہیں اور اگر ادویہ ڈالی جائیں تو ان کا اثر حتیٰ کہ ان کی خوشبو بھی طویل عرصہ تک برقرار رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ اطباء ادویہ کو کوٹ چھان کر ان میں چینی کے بجائے شہد ملا کر معجونیں وغیرہ تیار کرتے ہیں جس سے سہہ گنا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ مٹھاس کی جگہ کام دیتی ہے۔ دوسرے ادویہ کے اثر کو تادیر محفوظ رکھتی ہے اور تیسرے شہد بذات خود بھی اکثر امراض کا علاج ہے اور اس لحاظ سے دواؤں کی تاثیر کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ شہد کی مکھی بذات خود ایک زہریلا جانور ہے انسان کو ڈس جائے تو اس کی جلد متورم اور اس میں سخت سوزش پیدا ہوجاتی ہے اسی ذریعہ سے وہ اپنے چھتہ کی حفاظت کرنا خوب جانتی ہے جو لوگ چھتہ اتارنے کے فن میں ماہر ہوتے ہیں وہ جسم کو کپڑوں سے خوب لپیٹ کر اور جسم پر کئی طرح کی دوائیں مل کر چھتہ کو ہاتھ لگاتے ہیں اور جب چھتہ کو چھیڑنے کا (کاٹنے کا) وقت ہوتا ہے تو پہلے نیچے سے دھونی دیتے ہیں تاکہ مکھیاں اڑ کر دور چلی جائیں۔ بایں ہمہ مکھیاں مل کر اس شخص پر حملہ آور ہوتی ہیں لیکن اللہ نے چونکہ انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ سب جانوروں کو رام کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ لہٰذا وہ چھتہ اتار کر شہد حاصل کرلیتا ہے گویا ایسے زیریلے جانور کے اندر سے نکلا ہوا شہد انسان کی اکثر بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتا ہے نیز اس کے لیے ایک شیریں اور لذیذ غذا کا کام بھی دیتا ہے۔ مندرجہ بالا مشروبات کا ذکر محض اس لیے نہیں کیا کہ انسان کو بتایا جائے کہ اللہ نے اس کے لیے کس قدر لذیذ اور مفید اشیاء پیدا کی ہیں۔ بلکہ ان کے بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان یہ سوچے کہ اللہ تعالیٰ نے جو پھل یا مویشی یا جاندار پیدا کیے ہیں۔ ان سب کے ماحصل سے انسان ہی فائدہ اٹھاتا ہے۔ پھر اللہ کی ان معجز نما قدرتوں میں بھی غور و فکر کرے کہ یہ مویشی یا مکھیاں وغیرہ جن محیر العقول طریقوں سے انسان کو یہ چیزیں فراہم کرتی ہیں ان میں انسان کے غور و فکر کے لیے بڑا وسیع میدان موجود ہے۔ پھر وہ یہ بھی سوچے کہ اللہ کے سوا ان چیزوں کو کوئی اور بنا سکتا ہے یا ان کی جبلت میں فطری تعلیم ودیعت کرسکتا ہے۔ اور اگر ان باتوں کا جواب نفی میں ہو تو پھر اس کا شریک بنانے یا انھیں شریک تسلیم کرنے کی ضرورت ہی کہاں پیش آتی ہے؟