وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور وہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کردیا، تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زینت کی چیزیں نکالو، جنھیں تم پہنتے ہو۔ اور تو کشتیوں کو دیکھتا ہے، اس میں پانی کو چیرتی چلی جانے والی ہیں اور تاکہ تم اس کا کچھ فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔
[١٤] سمندروں کے فوائد :۔ پھر ٹھاٹھیں مارنے والے سمندر کو اور تلاطم خیز موجوں کو اپنے مخصوص قوانین کا پابند بنا دیا حتیٰ کہ انسان سمندر کے پانی کے اندر اور اوپرتصرف کرنے کے قابل بن گیا۔ ورنہ ایسے وسیع اور مہیب سمندر کے مقابلہ میں بے چارے انسان کی حقیقت ہی کیا تھی۔ اب وہ سمندری جانوروں کا شکار کرکے اپنی غذائی ضروریات بھی فراہم کرتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سمندر کا پانی تو سخت شور اور کڑوا ہوتا ہے جبکہ اس کے جانوروں اور بالخصوص مچھلی کا گوشت انتہائی لذیذ ہوتا ہے۔ اس میں شور کا اثر نام کو نہیں ہوتا پھر اس سے گھونگے، صدف اور مرجان اور کئی دوسری چیزیں نکال کر اپنے زیور اور آرائش کی چیزیں بھی بناتا ہے پھر کشتیوں اور جہازوں کے ذریعہ سمندر کی پشت پر سوار ہو کر ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور ایک ملک سے دوسرے ملک جاپہنچتا ہے اور اس طرح ایک ملک کی چیزیں دوسرے ملک پہنچا کر تجارتی فوائد حاصل کرتا ہے۔ اگر پانی اپنے مخصوص فطری قوانین کا پابند نہ ہوتا یانہ رہے تو انسان اس سے کبھی ایسے فوائد حاصل نہ کرسکتا تھا۔ یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے تمام اشیاء کے لیے مخصوص قوانین بنا دیئے ہیں جن کی وہ بہرحال پابند رہتی ہیں۔ اس طرح انسان ان سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہوجاتا ہے۔