وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ
اور جانّ (یعنی جنوں) کو اس سے پہلے لوکی آگ سے پیدا کیا۔
[٨ ١] جنوں کی پیدائش آگ سے ہوئی :۔ جنوں کو ایسی آگ سے پیدا کیا گیا جس میں ہوا ملی ہوئی تھی۔ سموم بمعنی سخت گرم ہوا۔ یعنی اتنی گرم ہوا سے جو آگ جیسی گرم ہو اور ہر چیز کو جھلس کر رکھ دے۔ جس سے معلوم ہوا کہ جنوں کی پیدائش میں غالب عنصر آگ تھا۔ ابلیس اصل میں جنوں کی جنس سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر اپنی ہمہ وقت عبادت گزاری کی وجہ سے فرشتوں کی صفوں میں شامل ہوگیا تھا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ کا حاشیہ نمبر ٥٣) جانّ اور جن کا لغوی مفہوم اور مراد :۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جس طرح آدمیوں یا انسانوں کے جد امجد کا نام آدم علیہ السلام ہے۔ اسی طرح جنوں کا جد امجد جانّ ہے۔ اور جن کا لغوی معنی کسی چیز کو ڈھانپ کر چھپا دینا ہے کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ اور جنوں کو بھی جن اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کے لیے غیر مرئی مخلوق ہے جو انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ جن اپنی شکل و صورت بدل سکتے ہیں کبھی یہ دیو، بھوت پریوں کی شکل میں انسانوں کے سامنے نمودار ہوتے ہیں اور کبھی سانپ کی شکل میں۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر تم گھروں میں سانپ دیکھو تو مارنے سے پہلے اسے کہہ لو کہ اگر وہ جن ہے تو چلا جائے۔ قرآن میں بھی جان کا لفظ سانپ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ (٢٧ : ١٠) اور جان صرف ایسے سانپ کو کہتے ہیں جو عصا کی طرح لمبا اور پتلا ہو۔