وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ
اور کوئی بھی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے۔
[٢ ١] ضروریات زندگی کی مناسب مقدار میں فراہمی :۔ اللہ کے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں لہٰذا وہ چاہتا تو تمام انسانوں کو وافر رزق اور مال و دولت عطا کرسکتا تھا۔ مگر اس کی حکمت کا تقاضا ایسا نہیں کیونکہ ایک تو رزق کی فراوانی عموماً اللہ کو بھول جانے اور گمراہ ہوجانے کا سبب بن جاتی ہے۔ الاماشاء اللہ اور دوسرے اگر تمام لوگ ہی مالدار ہوتے اور محتاج کوئی بھی نہ ہوتا تو دنیا کا موجودہ نظام چل ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ اسی صورت میں چل سکتا ہے کہ ایک کو دوسرے کی احتیاج ہو۔ امیر کو غریب کی احتیاج ہو اور غریب کو امیر کی۔ پھر اس میں انسان کی آزمائش بھی ہے لہٰذا رزق کی کمی بیشی کا تمام تر معاملہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ پھر یہ معاملہ صرف رزق تک محدود نہیں بلکہ اس میں ضروریات زندگی کی تمام اشیاء شامل ہیں۔ مثلاً ہوا، پانی، روشنی، حرارت، گرمی، سردی، ان میں سے کوئی بھی چیز اپنی مقرر حد سے بڑھ جائے یا کم ہوجائے تو انسان کی زندگی محال ہوجائے۔ گویا اللہ کے پاس خزانے تو ہر چیز کے ہیں مگر وہ انھیں اپنی حکمت اور طے شدہ مقدار کے مطابق ہی مہیا کرتا ہے۔ مثلاً پانی کی افراط بھی اگر طوفان کی صورت اختیار کرجائے تو وہ بھی انسان کی ہلاکت کا موجب ہے اور تفریط ہو تو وہ بھی۔ یہی حال دوسری ضروریات زندگی کا ہے۔