إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔
[٥] ذکر اور قرآن کا فرق :۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بجائے ذکر کا لفظ استعمال فرمایا۔ جس کا لغوی معنی یاددہانی یا نصیحت ہے۔ اگرچہ صفاتی پہلو سے قرآن کریم کا ایک نام ذکر بھی ہے تاہم یہ دونوں نام ایک دوسرے کے مترادف نہیں۔ جیسے سورۃ قمر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ للذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ ﴾جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اور ذکر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ذکر جب یاد دہانی کے معنوں میں آتا ہے تو اس سے مراد تمام منزل من اللہ وحی ہوتی ہے۔ یعنی کتاب بھی اور وہ بصیرت بھی جو اللہ تعالیٰ کتاب کے بیان کے لیے اپنے رسولوں کو عطا فرماتا ہے۔ اسی بصیرت کو ہم سنت بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کی حفاظت کا ہی ذمہ نہیں لیا بلکہ اس کے معانی و مطالب کا بھی ذمہ لے رکھا ہے۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری کس طرح پوری فرمائی؟ حفاظت قرآن بذریعہ کتابت :۔ حفاظت قرآن کے کئی پہلو ہیں اور یہ حفاظت بذریعہ کتابت بھی کی گئی اور بذریعہ حفظ بھی اور اس حفاظت کا تمام تر کام اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے لیا۔ بذریعہ کتابت قرآن کریم کی حفاظت کے سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمایئے۔ ١۔ سیدنا زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ (کاتب وحی) کہتے ہیں کہ جب (١١ ھ میں) یمامہ کی لڑائی میں (جو مسیلمہ کذاب سے ہوئی تھی) بہت سے صحابہ شہید ہوگئے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس موجود تھے۔ میں گیا تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : میرے پاس عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کہ ’’یمامہ کی لڑائی میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر اسی طرح اور لڑائیوں میں بھی مسلمان مارے جائیں تو بہت سا قرآن دنیا سے اٹھ جائے گا۔ اگر قرآن کو ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو یہ ڈر نہ رہے گا۔ لہٰذا آپ قرآن کو جمع کرا دیں‘‘ اور میں (ابوبکر رضی اللہ عنہ )نے عمررضی اللہ عنہ کو یہ جواب دیا کہ ’’میں وہ کام کیسے کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا‘‘ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔ ’’اللہ کی قسم! یہ اچھا کام ہے اور بار بار یہی کہتے رہے تاآنکہ اللہ نے میرا سینہ کھول دیا اور میں عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق ہوگیا‘‘ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’عمر رضی اللہ عنہ خاموشی سے یہ بات سنتے رہے‘‘ پھر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھے کہنے لگے ’’تم جوان اور عاقل ہو اور ہم تمہیں سچا جانتے ہیں اور دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کاتب وحی رہے ہو تو اب ایسا کرو کہ قرآن (کی جا بجا لکھی ہوئی تحریروں) کو تلاش کرو اور سب کو اکٹھا کردو‘‘ زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھے پہاڑ ڈھونے کو کہتے تو مجھے اتنا مشکل معلوم نہ ہوتا جتنا قرآن جمع کرنا معلوم ہوا آخر میں نے کہا ’’تم دونوں ایسا کام کرتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا‘‘ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے ’’اللہ کی قسم! یہ اچھا کام ہے‘‘ میں نے ان سے بڑا تکرار کیا تاآنکہ اللہ نے میرا سینہ بھی کھول دیا اور میں نے یہ کام شروع کردیا۔ قرآن کہیں پرچوں پر، کہیں مونڈھے کی ہڈیوں پر، کہیں کھجور کی لکڑیوں پر لکھا ہوا تھا پھر اکثر لوگوں کو یاد بھی تھا۔ یہاں تک کہ میں نے سورۃ توبہ کی آخری دو آیتیں یعنی ﴿لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ﴾ تاآخر، خزیمہ بن ثابت انصاری کے سوا کسی کے ہاں نہ پائیں۔ پھر یہ مصحف جس میں قرآن جمع کیا تھا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی تک ان کے پاس رہا۔ پھر سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی زندگی تک ان کے پاس رہا۔ ان کی وفات کے بعد ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ کو ملا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ توبہ۔ باب جمع القرآن) ٢۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے جن دنوں وہ شام و عراق کے مسلمانوں کے ساتھ آرمینیا اور آذربائیجان فتح کرنے کی خاطر جہاد کر رہے تھے۔ وہ قرآن کی قراءت میں مسلمانوں کے اختلاف سے گھبرائے ہوئے تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے : امیر المومنین! اس سے پہلے کہ مسلمان یہود اور نصاریٰ کی طرح قرآن میں اختلاف کرنے لگیں، اس امت کی خبر لیجئے۔ چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو لکھ بھیجا کہ ’’ہمیں اپنا مصحف بھیج دیں۔ ہم اس کی نقول تیار کرکے آپ کا مصحف آپ کو واپس کردیں گے‘‘ چنانچہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ نے بھیج دیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، سعید بن عاص رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ کو حکم دیا۔ انہوں نے اس کی نقلیں تیار کیں۔ آپ نے یہ ہدایت کردی تھی کہ اگر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (انصاری) قراءت کے بارے میں باقی تینوں (قریشی) لوگوں سے اختلاف کریں تو قریش کے محاورہ کے مطابق لکھنا کیونکہ قرآن انہی کے محاورہ پر اترا ہے۔ جب نقلیں تیار ہوگئیں تو آپ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا مصحف انھیں واپس کردیا اور اس کی ایک نقل ہر مرکزی مقام میں بھجوادی۔ نیز حکم دیا کہ لوگوں کے پاس جو الگ الگ پرچیوں اور اوراق میں لکھا ہوا قرآن موجود ہے اسے جلا دیا جائے۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ باب جمع القرآن) تحریف لفظی سے بچاؤ کی صورتیں :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی حفاظت قرآن پر نسبتاً بہت زیادہ توجہ دی تھی۔ سب سے پہلے تو حافظ قرآن آپ خود تھے۔ جتنا قرآن نازل ہوچکا ہوتا۔ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جبریل علیہ السلام سے دور بھی فرمایا کرتے اور اپنی زندگی کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ دور فرمایا۔ پھر صحابہ کو یاد کرواتے اور ان سے سنتے اور بعض دفعہ سناتے بھی تھے۔ قرآن کریم کے مصاحف لکھنے والے صحابہ کی نسبت قرآن کریم کے حافظوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور حفظ قرآن کا یہ سلسلہ نسلاً بعد نسل آج تک چلا آرہا ہے اور یہ دونوں طریقے ایک دوسرے کی محافظت کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن سے محبت رکھنے والے کچھ ایسے لوگ بھی پیدا کردیئے جنہوں نے قرآن کریم کی آیات، الفاظ حتیٰ کہ حروف اور اعراب تک شمار کر ڈالے۔ نتیجہ یہ کہ نزول قرآن سے لے کر آج تک قرآن کے الفاظ و حروف میں سرموفرق نہیں آیا اور ان حالات میں کمی و بیشی ممکن ہی نہ رہی اور تحریف لفظی کے سب امکانات ختم ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظ قرآن پر جو زیادہ توجہ مبذول فرمائی اس کی وجوہ درج ذیل ہیں : ١۔ حفظ اور کتابت کی خوبیوں کا تقابل :۔ قرآن کریم مکتوبہ شکل میں نہیں بلکہ صوتی انداز میں نازل ہوا جس طرح جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھایا، اسی انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سنایا اور حفظ کروایا۔ اسی طریق حفاظت میں نہ کسی مخصوص رسم الخط کی ضرورت تھی۔ نہ حروف کی شکلوں' نقاط ' اعراب وغیرہ کی اور نہ ہی آیات کے ربط میں رموز و اوقاف (Punctuation) وغیرہ کی معلومات کی۔ یہ طریقہ نہایت سادہ اور فطری تھا لہٰذا اسی پر زیادہ توجہ صرف کی گئی۔ ٢۔ اہل عرب کا حافظہ نہایت قوی تھا لیکن لکھے پڑھے لوگ بہت کم تھے اور ان کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم تھی۔ ٣۔ تورات جو لکھی ہوئی شکل میں نازل ہوئی تھی صرف پڑھے لکھے طبقے ہی سے مخصوص ہو کر رہ گئی تھی پھر بعد میں آنے والے پڑھے لکھے لوگوں نے ہی اس میں تحریف کر ڈالی۔ ٤۔ لکھے ہوئے کو پڑھتے وقت ایک کم لکھا پڑھا آدمی غلطی کرجاتا ہے لیکن حافظ تلاوت کرتے وقت ایسی غلطی نہیں کرتا۔ اب اس کے مقابلہ میں تحریر کے بھی کچھ فوائد ہیں مثلاً ١۔ حافظ قرآن کسی وقت بھی بھول سکتا ہے۔ تحریر موجود ہو تو ایسی بھول کا ازالہ ممکن ہوجاتا ہے۔ ٢۔ حافظ کا علم اس کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے جبکہ کتابت بعد میں بھی موجود رہتی ہے اور یہی وہ خوبی ہے جس کی بنا پر قرآن کو جمع کرنا اور ضبط تحریر میں لانا ضروری سمجھا گیا جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے واضح ہے۔ لہٰذا حفاظت قرآن کے لیے یہ دونوں ہی طریقے لازم و ملزوم سمجھ کر اختیار کیے گئے۔ البتہ افضلیت کا درجہ حفظ ہی کو حاصل رہا اور اس حقیقت کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : ﴿ بَلْ ہُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ﴾ (۴۹:۲۹)بلکہ وہ (قرآن) تو واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے اور جہاں اللہ نے کتابت قرآن کا ذکر فرمایا تو وہاں عطیہ علم کا ذکر نہیں فرمایا : ارشاد باری ہے۔ ﴿وَالطُّوْرِِ وَکِتَابٍ مَّسْطُوْرٍ فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ﴾(۱:۵۲تا۳) قسم ہے طور (پہاڑ) کی اور اس کتاب کی جو پھیلے ہوئے کاغذ پر لکھی ہوئی ہے۔ شیعہ حضرات اور قرآن کی حفاظت :۔ ان سب باتوں کے باوجود شیعہ حضرات میں سے کچھ لوگ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مطعون کرتے ہیں کہ انہوں نے جمع قرآن کے وقت قرآن کی بہت سی آیات اور کئی سورتیں جو اہل بیت کی مدح میں تھیں خارج کردیں اور انھیں قرآن میں شامل نہیں کیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ طعن گو بظاہر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ہے لیکن حقیقتاً اس طعن کی زد اللہ تعالیٰ کی حفاظت کی ذمہ داری پر پڑتی ہے۔ فاعتبروا یا ولی الابصار۔ علاوہ ازیں یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ اس وقت سیدنا علی شیر خدا تو بفضلہ زندہ سلامت موجود تھے انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اتنے زبردست ارتکاب جرم کو کیسے گوارا کرلیا تھا ؟ تحریف معنوی سے حفاظت :۔ اس حفاظت ذکر سے متعلق تیسرا پہلو تحریف معنوی کا ہے یعنی اگر الفاظ قرآن کے ساتھ ساتھ مطالب قرآن کی حفاظت نہ ہو تو محض الفاظ کی حفاظت بے سود ہے اور اس صورت میں یہ قرآن ملحدین کی اور دوسرے گمراہ فرقوں کی طبع آزمائی کا تختہ مشق بن سکتا ہے لہٰذا ضروری تھا کہ قرآن کے جو معنی خود حامل قرآن یاصحابہ کرام نے سمجھے تھے ان کی بھی حفاظت کی جائے تاکہ باطل کسی طریقے سے بھی قرآن میں داخل نہ ہونے پائے اور اگر داخل ہونے کی کوشش کرے تو تحقیق کرکے اسے رد کیا جاسکے۔ اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے محدثین کرام کی جماعت کو پیدا فرمایا۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں اسی مقصد کی خاطر کھپا دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر طرح کی سنت کو محفوظ کردیا۔ جو درحقیقت قرآن کے معانی اور مطالب ہی کی حفاظت ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی حفاظت کا ایسا مضبوط انتظام فرما کر اپنا وعدہ پورا کیا کہ غیر مسلم بھی اس کی مکمل حفاظت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔