وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور شیطان کہے گا، جب سارے کام کا فیصلہ کردیا جائے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے وعدہ کیا، سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے تم سے خلاف ورزی کی اور میرا تم پر کوئی غلبہ نہ تھا، سوائے اس کے کہ میں نے تمھیں بلایا تو تم نے میرا کہنا مان لیا، اب مجھے ملامت نہ کرو اور اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمھاری فریاد کو پہنچنے والا ہوں اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے ہو، بے شک میں اس کا انکار کرتا ہوں جو تم نے مجھے اس سے پہلے شریک بنایا۔ یقیناً جو لوگ ظالم ہیں انھی کے لیے دردناک عذاب ہے۔
[٢٥] یعنی جب لوگوں کے اعمال کا حساب لینے کے بعد اہل جنت کو جنت میں اور اہل دوزخ کو دوزخ میں بھیج دیا جائے گا۔ [ ٢٦] شیطان کا دوزخیوں سے خطاب :۔ شیطان چونکہ خود بھی دوزخ میں جائے گا تو اہل دوزخ کو جو اسے ملامت کر رہے ہوں گے، مخاطب کرکے کہے گا۔ دیکھو! ایک وعدہ تو تم سے اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ کیا تھا جو یہ تھا کہ قیامت کا دن یقیناً آنے والا ہے اس دن ہر شخص کی اللہ کے حضور پیشی ہوگی۔ ہر ایک سے اس کے اعمال دنیا سے متعلق باز پرس ہوگی پھر اعمال کے مطابق ہر ایک کو جزا یا سزا دی جائے گی۔ یہ وعدہ بالکل سچا تھا جسے تم نے خود مشاہدہ کرلیا ہے۔ اور ایک وعدہ میں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ تم سے کیا تھا۔ جو یہ تھا کہ روز آخرت کا تصور محض ایک ڈھکوسلا ہے۔ مرنے کے بعد انسان مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ ہزاروں سال بعد وہ کیونکر دوبارہ زندہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے۔ لہٰذا یہاں خواہ مخواہ کی اپنے آپ پابندیاں لگا کر اپنے آپ کو جکڑ بند کیے رکھنا کون سی دانشمندی ہے؟ اس دنیا میں جتنی زندگی ہے عیش و آرام سے گزارنی چاہیے یا یہ وعدہ کیا تھا کہ فلاں پیر اور فلاں بزرگ کا دامن پکڑ لو، اس کی بیعت کرلو اور اس کے حضور نذر و نیاز پیش کردیا کرو۔ اگر آخرت کا دن ہوا بھی تو وہ بزرگ تمہیں سفارش کرکے اللہ سے بچالیں گے۔ شیطان کا اعتراف کہ میرا وعدہ جھوٹا تھا :۔ میں آج اقرار کرتا ہوں کہ میرا وعدہ جھوٹا تھا۔ مگر ایک بات ضرور ہے وہ یہ کہ میں نے صرف ان باتوں کی تم میں تحریک پیدا کی تھی۔ تمہیں اس طرف متوجہ ضرور کیا تھا جسے تم نے تسلیم کرلیا لیکن میرے پاس نہ تو کوئی عقلی دلیل تھی کہ تمہیں اس کا قائل کرسکتا اور نہ میرا تم پر کچھ زور چلتا تھا کہ میں تمہیں مجبور کرکے اپنی باتوں پر لگا سکتا۔ لہٰذا اب تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنی عقلوں کا ماتم کرو۔ آج میں بھی ویسے ہی بے بس ہوں جیسے تم ہو۔ نہ میں تمہاری کچھ حمایت یا مدد کرسکتا ہوں نہ تم میری مدد کرسکتے ہو کیونکہ دونوں ہی یکساں مجرم ہیں۔ [ ٢٧] یعنی تم نے اللہ کے احکام کے علی الرغم میری باتوں پرلگ کر اس کی نافرمانیاں کیں اور میری اطاعت کرکے مجھے یا میرے ایجنٹوں کو جو خدائی کا درجہ دے رکھا تھا میں اس کا بھی انکار کرتا ہوں اور برملا اقرار کرتاہوں کہ اللہ ہی وحدہ لاشریک ہے اور وہی بندگی اور پرستش کے قابل ہے اور تم نے جو میری انگیخت پر کئی قسم کے معبود، حاجت روا اور مشکل کشا بنا رکھے تھے یہ سب جھوٹ ہی جھوٹ تھا اور اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب میں تمہارے شریک بنانے سے پہلے ہی کافر بن چکا تھا تو پھر تم نے مجھے شریک بنایا ہی کیوں تھا ؟