وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال اور انھیں اللہ کے دن یاددلا، بلاشبہ اس میں ہر ایسے شخص کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو بہت صبر کرنے والا، بہت شکر کرنے والا ہے۔
[٦] تذکیر بایام اللہ سے مراد؟ ایام اللہ کے لفظی معنی ہیں اللہ کے دن اور اس سے ایسے دن مراد ہوتے ہیں جو تاریخ انسانی میں یادگار دن بن جاتے ہیں خواہ یہ خوشی کے ہوں یا مصیبت کے۔ بلکہ ایک ہی دن ایک فریق کے لیے خوشی کا دن ہوتا ہے اور دوسرے فریق کے لیے مصیبت کا۔ جیسے ١٠ محرم کو فرعون اور اس کے لشکری دریا میں غرق ہوئے۔ اب یہی دن بنی اسرائیل کے لیے تو انتہائی خوشی کا دن تھا کہ انھیں فرعونیوں کے مظالم سے نجات ملی اور وہ اسی خوشی میں ١٠ محرم کو ہر سال روزہ بھی رکھا کرتے تھے اور یہی دن فرعونیوں کے لیے مصیبت کا دن تھا یہی صورت ١٧ رمضان ٢ ھ کی ہے۔ مشرکین مکہ کو غزوہ بدر میں شکست فاش ہوئی۔ یہ دن مسلمانوں کے لیے انتہائی خوشی کا دن تھا جبکہ قریش مکہ کے لیے یہ دن بڑی مصیبت کا دن تھا۔ اسی طرح پہلی مجرم قوموں پر جو عذاب الٰہی نازل ہوتا رہا تو انھیں ایام اللہ کہا جاتا ہے۔ اور تذکیر بایام اللہ سے مراد ایسے ہی یادگار دنوں سے عبرت حاصل کرنا ہے اور یہ قرآن کریم کا خاص موضوع ہے جسے بے شمار مقامات پر دہرایا گیا ہے۔ انبیاء اور اقوام سابقہ کے حالات اور قصص بیان کرنے سے قرآن کا اصل مقصد بایام اللہ ہی ہوتا ہے۔ [ ٧] صبر وشکر کی فضیلت :۔ صبر اور شکر دو ایسی صفات ہیں جو ایک مومن کی پوری زندگی کو محیط ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صابر اور شاکر الفاظ کے بجائے صبار اور شکور کے الفاظ استعمال فرمائے اور یہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں یعنی ایک مومن کی زندگی یہ ہوتی ہے کہ جب اسے کوئی دکھ، تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے اور جب اس پر خوشحالی کے دن آتے ہیں یا کوئی خوشی یا بھلائی نصیب ہوتی ہے تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہے۔ اور زندگی بھر اس کا یہی معمول رہتا ہے اس کے مقابلے میں ایک دنیا دار یا ایک کافر کی زندگی اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے جب اسے کوئی دکھ پہنچے یا تنگدستی کے دن آئیں تو اللہ کے شکوے اور جزع و فزع کرنے لگتا ہے اور جب کوئی خوشی نصیب ہو یا خوشحالی کے دن آئیں تو ایسا احسان فراموش بن جاتا ہے کہ اللہ کو بھول ہی جاتا ہے۔ یعنی ایام اللہ سے عبرت صرف وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو صبر اور شکر کی صفات سے متصف ہوں۔