سورة البقرة - آیت 167

وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ كَذَٰلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ ۖ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جن لوگوں نے پیروی کی تھی کہیں گے کاش! ہمارے لیے ایک بار دوبارہ جانا ہو تو ہم ان سے بالکل بے تعلق ہوجائیں، جیسے یہ ہم سے بالکل بے تعلق ہوگئے۔ اس طرح اللہ انھیں ان کے اعمال ان پر حسرتیں بنا کر دکھائے گا اور وہ کسی صورت آگ سے نکلنے والے نہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٠٦]پیروں کی اپنے مریدوں سے بیزاری اور اس کےبرعکس:۔ ان دو آیات میں میدان محشر کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے اور مشرکوں اور ان کے معبودوں یعنی مرشدوں اور (مریدوں) پیروکاروں کے درمیان مکالمہ بیان کیا گیا ہے۔ جو یہاں دنیا میں اپنے مریدوں کے مشکل کشا، حاجت روا اور شفاعت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے تھے۔ قیامت کے دن چونکہ اللہ کے حضور جواب دہی کی دہشت اور خوف اس قدر زیادہ ہوگا کہ ہر ایک کو اپنی ہی جان کی پڑی ہوگی۔ لہٰذا یہ پیشوا حضرات ان مریدوں کی اعانت و امداد یا سفارش سے نہ صرف انکار کریں گے، بلکہ دنیا میں ان کو اپنا مرید ہونے سے ہی انکار کردیں گے اور کہہ دیں گے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے نہ ہم انہیں پہچانتے ہیں۔ بلکہ ان سے بے زاری اور نفرت کا اظہار کریں گے۔ یہ صورت حال دیکھ کر مرید حضرات سخت مایوس ہوجائیں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش ہمیں دنیا میں جانے کا ایک اور موقع مل سکے تو ہم بھی ان سے یہی سلوک کریں جو آج یہ ہم سے کر رہے ہیں اور ہم بھی ان پیروں سے ایسے بے تعلق اور بیزار ہوجائیں۔ جیسے یہ آج ہم سے بے تعلق اور بے زار بن گئے ہیں۔ [ ٢٠٧] مشرکوں کے اعمال حسرت کا سبب کیوں ؟ایک حسرت تو یہ ہوگی کہ مرشدوں نے اپنے وعدوں کے خلاف بے زاری کا اظہار کردیا، اور دوسری یہ کہ جو اچھے اعمال مثلاً صدقہ و خیرات اور نذر و نیاز وغیرہ کرتے رہے وہ تو ان کے شرک کی وجہ سے ضائع ہوجائیں گے اور برے اعمال برقرار رہیں گے۔ اس طرح وہ کئی قسم کی حسرتوں کا مجموعہ بن جائیں گے۔ ان کے مرشد بھی باعث حسرت اور ان کے اعمال بھی باعث حسرت لیکن ان حسرتوں کا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلے گا اور دوزخ کے عذاب سے نجات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔