أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا ۚ وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ۚ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ
اس نے آسمان سے کچھ پانی اتارا تو کئی نالے اپنی اپنی وسعت کے مطابق بہ نکلے، پھر اس ریلے نے ابھرا ہوا جھاگ اٹھا لیا۔ اور جن چیزوں کو کوئی زیور یا سامان بنانے کی غرض سے آگ پر تپاتے ہیں ان سے بھی اسی طرح کا جھاگ (ابھرتا) ہے۔ اسی طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے، پھر جو جھاگ ہے سو بے کار چلا جاتا ہے اور رہی وہ چیز جو لوگوں کو نفع دیتی ہے، سو زمین میں رہ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ مثالیں بیان کرتا ہے۔
[٢٥] معرکہ حق وباطل کی دو مثالیں اور بقائے انفع :۔ اس مثال میں علم وحی کو باران رحمت سے تشبیہ دی گئی ہے اور ایمان لانے والے سلیم الفطرت لوگوں کو ندی نالوں سے، جو اپنے اپنے ظرف کے مطابق اس باران رحمت سے بھرپور ہو کر رواں دواں ہوجاتے ہیں اور دعوت حق کے مقابلہ میں معاندین اور منکرین جو شورش برپا کرتے ہیں اسے اس جھاگ اور خس و خاشاک سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایسے سیلاب میں پانی کی سطح کے اوپر آجاتا ہے۔ لیکن اس جھاگ اور خس و خاشاک کی حقیقت صرف اتنی ہی ہوتی ہے کہ کسی وقت بھی دریا اچھل کر اسے کناروں پر پھینک دیتا ہے۔ جہاں ہوا اور دھوپ اسے خشک کرکے ختم کردیتی ہے اور یہ سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے اور پانی جو انسانوں کو نفع دینے والی چیز ہے، وہی باقی رہتی ہے۔ خواہ اس کا کچھ حصہ زمین جذب کرلے یا اکثر حصہ زمین کو سیراب کرنے کے لیے آگے رواں کردے کہ وہ کسی دوسرے علاقہ کو سیراب کرے۔ حق و باطل کی دوسری مثال یہ ہے کہ جب دھاتوں کو، جن سے زیورات یا دوسری کارآمد اشیاء بنتی ہیں۔ کٹھالی میں تپایا جاتا ہے تو اس کا ناکارہ حصہ اور کھوٹ سب کچھ ایک دم اوپر آکر کام کی چیز کو چھپاتا ہی نہیں بلکہ اس پر پوری طرح چھا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ با لآخر جل جاتا ہے اور اسے باہر پھینک دیا جاتا ہے اور مائع دھات جس کا زیور وغیرہ بنتا ہے وہ نیچے ہوتی ہے اسی طرح معرکہ حق و باطل میں ایک دفعہ باطل ضرور حق پر چھا جاتا ہے۔ لیکن بالآخر حق ہی باقی رہتا ہے کیونکہ وہی لوگوں کے فائدہ کی چیز ہوتی ہے۔ ان دونوں مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم اور اس کی تعلیم جو لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیز ہے، جاودانی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ہر دور میں قرآن کے بڑے بڑے عالم پیدا ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ باطل ان کے مقابلہ پر اتر آتا ہے اور ابتداء ًحق پر چھا جاتا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ حق سے باطل پر یا وحی الٰہی کے عالموں سے معاندین اور منکرین حق پر ضربیں اور چوٹیں لگاتا ہے تو باطل جلد ہی خس و خاشاک اور جھاگ کی طرح ختم ہوجاتا ہے اور حق ہی باقی رہ جاتا ہے اور اس کے باقی رہنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس میں لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ ڈارون نے اپنے نظریہ ارتقاء میں بقائللاصلاح صلح...... کی اصطلاح (SURVIVAL OF THE FITTEST) استعمال کی تھی۔ یعنی جس چیز میں باقی رہنے کی صلاحیت موجود ہو وہی باقی رہتی ہے۔ قرآن نے اس کے مقابلہ میں بقاء للانفع کا ذکر فرمایا ہے جو عقل کو ڈارونی اصطلاح سے بہت زیادہ اپیل کرتا ہے۔ یعنی ڈارون کا نظریہ یہ ہے کہ کسی چیز میں باقی رہنے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔ اگر صلاحیت نہیں تو وہ باقی نہ رہے گی۔ جب کہ قرآن یہ بتلاتا ہے کہ جس چیز میں لوگوں کے لیے فائدہ ہو صرف وہی باقی رہتی ہے۔ کھوٹ میں لوگوں کے لیے کچھ فائدہ نہ تھا۔ لہٰذا وہ جل گیا۔ سونے میں لوگوں کے لیے فائدہ تھا۔ لہٰذا وہ باقی رہ گیا۔