سورة یوسف - آیت 110

حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہاں تک کہ جب رسول بالکل ناامید ہوگئے اور انھوں نے گمان کیا کہ بے شک ان سے یقیناً جھوٹ کہا گیا تھا تو ان کے پاس ہماری مدد آگئی، پھر جسے ہم چاہتے تھے وہ بچا لیا گیا اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠٤] اللہ کی مدد میں تاخیر سے مومنوں پر اثر :۔ اس آخری جملہ کی تشریح کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کو جن لوگوں نے مانا اور ان کی تصدیق کی۔ جب ایک مدت دراز تک ان پر آفت اور مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوگئی اور پیغمبر جھٹلانے والوں کے ایمان لانے سے ناامید ہوگئے اور یہ گمان کرنے لگے کہ جو لوگ ایمان لاچکے ہیں اب وہ بھی ہمیں جھوٹا سمجھنے لگیں گے۔ اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اس آیت سے اللہ کے قانون امہال (مہلت دینے کے قانون) پر روشنی پڑتی ہے۔ یعنی بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ رسولوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب جن لوگوں نے ایمان لانا تھا وہ لاچکے۔ پھر بھی ان پر عذاب الٰہی نہ آیا جس کا رسولوں کی زبان سے انھیں وعدہ دیا گیا تھا۔ اب جو لوگ ایمان لاکر منکرین حق کے ظلم و ستم برداشت کر رہے تھے اور ان سے جو وعدہ فتح و نصرت کیا جارہا تھا۔ ایک تو وہ پورا نہیں ہو رہا تھا۔ دوسرے منکرین حق کو یہ یقین ہوگیا کہ نبیوں کے یہ عذاب کے وعدے سب ڈھکوسلے ہیں۔ لہٰذا ایمان لانے والے بھی یہ سمجھنے لگے کہ ان پیغمبروں نے ہمارے ساتھ کہیں جھوٹ ہی نہ بولا ہو۔ یا ایسے وعدے جھوٹے ہی نہ ثابت ہوں۔ ایسے مایوس کن حالات میں بعض دفعہ پیغمبروں کے پائے ثبات میں بھی لغزش آنے لگی ہو۔ جیسا کہ سورۃ بقرہ میں ہے۔ ﴿وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ﴾ (۲:۲۱۴) اس وقت اللہ کا عذاب آگیا اور جب عذاب کا وقت آجاتا ہے تو پھر وہ موخر نہیں ہوسکتا اور اس عذاب سے اللہ ایمان والوں کو بچانے کی کوئی راہ دکھلا ہی دیتا ہے۔