سورة یوسف - آیت 67

وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اس نے کہا اے میرے بیٹو! ایک دروازے سے داخل نہ ہونا اور الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا اور میں تم سے اللہ کی طرف سے (آنے والی) کوئی چیز نہیں ہٹا سکتا، حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی پر پس لازم ہے کہ بھروسا کرنے والے بھروسا کریں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٥] پھر جب ان گیارہ بھائیوں کی روانگی کا وقت آیا تو کئی طرح کے اندیشے سیدنا یعقوب علیہ السلام کے دل میں پیدا ہونے لگے پہلے ان کے بیٹے اجنبی مسافروں کی حیثیت سے اور بے بسی کے عالم میں مصر داخل ہوئے تھے۔ اب یہ ایک لحاظ سے شاہی دعوت کی بنا پر شان و شوکت سے روانہ ہو رہے تھے۔ گیارہ بھائی تھے۔ سب کے سب جوان اور خوبصورت، پھر پہلی بار بھی ان سے مصر میں عام لوگوں جیسا سلوک نہ ہوا تھا بلکہ ان کی بہت عزت و تکریم کی گئی تھی جسے اہل مصر خوب جانتے تھے۔ لہٰذا روانگی کے وقت سیدنا یعقوب علیہ السلام کو سب سے بڑا اندیشہ یہی تھا کہ کہیں انھیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ لہٰذا احتیاطی تدبیر کے طور پر انھیں یہ ہدایت کی کہ وہ مصر کے کسی ایک ہی دروازہ سے داخل نہ ہوں۔ بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں۔ بعض لوگ نظر لگنے کو محض ایک وہم خیال کرتے ہیں۔ درج ذیل حدیث کی رو سے ان کا خیال باطل ہے : ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نظر لگنا برحق ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کرتی تو نظر کرتی۔ (مسلم، کتاب السلام، باب الطب والمرضیٰ والرقی۔۔) اس تدبیر کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی بتلا دیا کہ ہماری تدابیر بھی اس صورت میں کام آسکتی ہیں جبکہ اللہ کو منظور ہو، اور اگر اللہ کو منظور نہ ہو تو سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہو۔ لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھنا تدابیر اختیار کرنے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔