إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ
بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو کوئی اس گھر کا حج کرے، یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں کا خوب طواف کرے اور جو کوئی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو بے شک اللہ قدر دان ہے، سب کچھ جاننے والا ہے۔
[ ١٩٧] صفا اور مروہ خانہ کعبہ کے نزدیک دو پہاڑیاں ہیں۔ جن کے درمیان سات بار دوڑنا مناسک حج میں شامل تھا۔ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سکھلائے تھے۔ زمانہ مابعد میں جب مشرکانہ جاہلیت پھیل گئی تو مشرکوں نے صفا پر اساف اور مروہ پر نائلہ کے بت رکھ دیئے تھے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال کھٹکنے لگا کہ آیا صفا اور مروہ کے درمیان سعی حج کے اصلی مناسک میں سے ہے یا یہ محض مشرکانہ دور کی ایجاد ہے؟ چنانچہ اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس غلط فہمی کو دور کر کے صحیح بات کی طرف رہنمائی فرما دی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ صفا اور مروہ کےطواف میں کیاقباحت سمجھی جاتی تھی؟عاصم بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ابتدائے اسلام میں ہم اسے جاہلیت کی رسم سمجھتے تھے۔ لہٰذا اسے چھوڑ دیا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ ان الصفا والمروۃ) نیز اہل مدینہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو اس لیے برا سمجھتے تھے کہ وہ منات کے معتقد تھے اور اساف اور نائلہ کو نہیں مانتے تھے۔ چنانچہ ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا جبکہ میں ابھی کمسن تھا کہ اللہ تعالیٰ کے قول آیت ان الصفا والمروۃ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص صفا اور مروہ کا طواف نہ کرے تب بھی کوئی قباحت نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں۔ اگر یہ مطلب ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتے۔ ’’اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں۔‘‘ یہ آیت انصار کے حق میں اتری ہے۔ وہ حالت احرام میں منات کا نام پکارتے تھے اور یہ بت قدید کے مقام پر نصب تھا۔ انصار (اسی وجہ سے) صفاء مروہ کا طواف برا سمجھتے تھے۔ جب وہ اسلام لے آئے تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکور)