سورة یوسف - آیت 51

قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اس نے کہا تمھارا کیا معاملہ تھا جب تم نے یوسف کو اس کے نفس سے پھسلایا ؟ انھوں نے کہا اللہ کی پناہ! ہم نے اس پر کوئی برائی معلوم نہیں کی۔ عزیز کی بیوی نے کہا اب حق خوب ظاہر ہوگیا، میں نے ہی اسے اس کے نفس سے پھسلایا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً سچوں سے ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٠] عورتوں کا اعتراف جرم :۔ اب صورت حال یہ بن گئی تھی کہ بادشاہ خود سیدنا یوسف علیہ السلام کے معاملہ میں ذاتی دلچسپی لینے لگا تھا۔ اس نے فوراً اس تکیہ دار دعوت میں شریک ہونے والی سب عورتوں کو بلا کر گواہی طلب کی اور گواہی سے پہلے بادشاہ کا یہ کہنا کہ ”جب تم نے یوسف کو ورغلانا چاہا تھا “سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کو اس واقعہ کی خبر ضرور تھی۔ البتہ اس نے اعیان سلطنت کی رائے کے علی الرغم اس واقعہ کی تحقیق کو کچھ اہمیت نہ دی تھی۔ ان عورتوں کو بھی اب موقعہ کی نزاکت خوب معلوم تھی کہ اب سچ کہے بغیر چارہ نہیں۔ چنانچہ انہوں نے صاف صاف اعتراف کرلیا کہ یوسف بالکل بے قصور ہے اس نے ہم میں سے کسی کو بھی میلی آنکھ سے دیکھا تک نہیں۔ عورتوں کی اس گواہی کے بعد زلیخا کے لیے بھی کسی مکر و فریب یا جھوٹ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی اور اس نے سب کے سامنے برملا اعتراف کرلیا کہ اصل مجرم میں ہوں۔ میں نے ہی اس پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی تھی اور یوسف علیہ السلام بالکل بے قصور اور سچا ہے۔