وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ وَلَا تَنقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ ۚ إِنِّي أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا)۔ اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں اور ماپ اور تول کم نہ کرو، بے شک میں تمھیں اچھی حالت میں دیکھتا ہوں اور بے شک میں تم پر ایک گھیر لینے والے دن کے عذاب سے ڈرتاہوں۔
[٩٥] شرک ام الامراض ہے :۔ سیدنا شعیب علیہ السلام کا قصہ بھی سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٨٤ تا ٩٥ میں گذر چکا ہے لہٰذا وہ حواشی بھی پیش نظر رکھنے چاہئیں۔ شرک ایسی بیماری ہے جو تقریباً ہر قوم میں پائی جاتی ہے اور بالخصوص ان اقوام میں ضرور موجود تھی جن کی طرف انبیاء مبعوث ہوتے رہے باقی تمام اخلاقی اور معاشرتی بیماریاں اور برائیاں اسی شرک سے ہی پھوٹتی ہیں گویا جس طرح جسمانی بیماریوں میں قبض کو ام الامراض قرار دیا گیا ہے اسی طرح روحانی بیماریوں میں شرک ام الامراض ہے۔ شرک سے اجتناب اور توحید کے عقیدہ سے معاشرہ کی اصلاح کیسے ہوتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت کا پہلا ہدف یہی مرض رہا ہے انبیاء شرک کی تردید کے ساتھ ساتھ توحید کی دعوت دیتے اور ایمان لانے والوں میں اللہ کی صحیح معرفت پیدا کرتے ہیں جس سے دلوں میں تقویٰ یا خشیت الٰہی پیدا ہوتا ہے اور یہ تقویٰ ہی ایسی چیز ہے جو تمام معاشرتی اور اخلاقی بیماریوں کے لئے شفا کا حکم رکھتا ہے۔ شرک کے علاوہ بعض قوموں میں بعض مخصوص برائیاں بھی ہوتی ہیں جیسے قوم لوط جو لونڈے بازی کی لعنت میں گرفتار تھے۔ قوم شعیب تجارتی کاروبار میں بے ایمانی کرتے تھے۔ قوم فرعون نے بنواسرائیل پر قیامت ڈھا رکھی تھی۔ شرک کے بعد انبیاء کی دعوت کا دوسرا ہدف ایسی ہی مخصوص بیماریاں ہوتی ہیں۔ اہل مدین دو تجارتی شاہراہوں کے چوک میں واقع تھے اور یہ علاقہ اس وجہ سے نہایت اہم تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ یہ لوگ صرف ناپ تول کے پیمانوں میں ہی ہاتھ کی صفائی نہیں دکھاتے تھے بلکہ ہر وہ بددیانتی کرنا جانتے تھے جس کی وجہ سے دوسرے کا حق مارا جاسکے۔ اسی لیے شعیب علیہ السلام نے شرک کے بعد انھیں ایسی ہی تجارتی بددیانتیاں چھوڑنے کی نصیحت کی اور ان کی یہی کرتوتیں فساد فی الارض کے مترادف تھیں جن کے ذریعہ وہ دوسروں کے حق غصب کیا کرتے تھے۔