وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ تیری قوم میں سے کوئی ہرگز ایمان نہیں لائے گا مگر جو ایمان لاچکا، پس تو اس پر غمگین نہ ہو جو وہ کرتے رہے ہیں۔
[٤٣] عذاب صرف گندے عنصر پر آتا ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی دعوت اور قوم کے انکار کے نتیجہ میں عذاب اس وقت تک نہیں آتا جب تک اس میں کچھ بھلے آدمیوں کے نکل آنے کا امکان باقی ہو اور جب ایمان لانے والے ایمان لاچکتے ہیں اور باقی صرف گندہ عنصر ہی رہ جاتا ہے تو یہی عین عذاب کا وقت ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورۃ نوح میں سیدنا نوح علیہ السلام نے خود بھی دعا کرتے وقت کہا تھا کہ ’’یا اللہ اب اس قوم کو غارت کردے کیونکہ اب ان لوگوں میں کسی کے ایمان لانے کی توقع نہیں رہی بلکہ جو اولاد یہ جنیں گے وہ بھی فاسق و فاجر ہی پیدا ہوگی لہٰذا ان میں سے ایک گھرانہ بھی زندہ نہ چھوڑ‘‘ (٧١: ٢٦، ٢٧)