وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ
اور اے میری قوم! میں تم سے اس پر کسی مال کا سوال نہیں کرتا، میری مزدوری اللہ کے سوا کسی پر نہیں اور میں ان لوگوں کو دور ہٹانے والا نہیں جو ایمان لائے ہیں، یقیناً وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور لیکن میں تمھیں ایسے لوگ دیکھتا ہوں جو جہالت برتتے ہو۔
[٣٧] نبوت اور رسالت پر اجر؟ میں نہ تمہارا تنخواہ دار ہوں نہ تم سے کسی معاوضہ کا مطالبہ کرتا ہوں پھر تم مجھ سے یہ مطالبہ کیسے کرسکتے ہوں کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں انھیں میں اپنے ہاں سے رخصت کردوں تم یہ کیسی جہالت کی باتیں کرتے ہو۔ میں انھیں اس لحاظ سے تم سے بدرجہا بہتر سمجھتا ہوں کہ انہوں نے حق کو حق سمجھ کر قبول کرلیا ہے یہ لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں تمہاری طرح سرکش اور ہٹ دھرم نہیں اللہ کے ہاں تو معزز وہ ہے جو ایمان دار اور پرہیزگار ہو ذات کا اونچا یا نیچا ہونا چنداں فائدہ نہیں دیتا اور اگر بالفرض میں تمہارے کہنے پر انھیں اپنے ہاں سے نکال دوں تو میں تو خود اللہ کے ہاں مجرم ٹھہرتا ہوں پھر اللہ کے مقابلہ میں کوئی ہے جو اس وقت میری مدد کرسکے؟