أَلَا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ ۚ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
سن لو! بلاشبہ وہ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں، تاکہ اس سے چھپے رہیں، سن لو! جب وہ اپنے کپڑے اچھی طرح لپیٹ لیتے ہیں وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ بے شک وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والا ہے۔
[٧] اس آیت کا مقصد تو اللہ تعالیٰ کے علم محیط کی وسعت کو بیان کرنا ہے کہ کھلی اور چھپی چیزیں تو کجا وہ تو دلوں کے ارادوں تک سے واقف ہے مگر اس آیت کے ابتدائی جملہ کی تفسیر میں مفسرین نے بہت اختلاف کیا ہے ان میں سے ہم صرف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بخاری میں مذکور روایت پر اعتماد کرتے ہیں جو درج ذیل ہے : محمد بن عبید بن جعفر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ یہ آیت کس باب میں اتری ہے تو انہوں نے کہا : کچھ لوگ رفع حاجت کے وقت یا اپنی بیویوں سے صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف ستر کھولنے سے (پروردگار سے) شرماتے اور شرم کے مارے جھکے جاتے تھے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر) یعنی اگر تمہیں بوقت ضرورت بدن کھولنے میں اللہ سے حیا آتی ہے اور اس طرح جھکے جاتے ہو تو کیا جس وقت کپڑے اتارتے اور پہنتے ہو اس وقت تمہارا ظاہر و باطن اللہ کے سامنے نہیں ہوتا ؟ اور جب انسان اللہ سے کسی وقت بھی چھپ نہیں سکتا تو پھر ضرورت بشریہ سے متعلق اس قدر غلو سے کام لینا درست نہیں۔