فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
پھر اگر تو اس کے بارے میں کسی شک میں ہے جو ہم نے تیری طرف نازل کیا ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لے جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں، بلاشبہ یقیناً تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے حق آیا ہے، سو تو ہرگز شک کرنے والوں سے نہ ہو۔
[١٠٤] شک کا علاج اہل علم سے تحقیق کرنا ہے :۔ بظاہر یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے لیکن اس سے مراد دوسرے لوگ ہیں اور یہ خطاب محض تاکید مزید کی بنا پر ہے وجہ یہ ہے کہ ہر نبی منزل من اللہ وحی پر سب سے پہلے خود ایمان لاتا ہے پھر دوسروں کو دعوت دیتا ہے اور شک اور ایمان دو بالکل متضاد چیزیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھلا اس بات میں کیسے شک کرسکتے تھے جس کی تمام دنیا کو دعوت دے رہے تھے اور سننے والوں کے دلوں میں بھی پہاڑ سے زیادہ مضبوط یقین پیدا کردیتے تھے اب اگر اللہ کی نازل کردہ وحی میں کسی شخص کو شک پیدا ہو کہ آیا یہ واقعی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے یا نہیں تو اس کا علاج یہ نہیں کہ وہ شک میں ہی پڑا رہے بلکہ یہ ہے کہ جن لوگوں پر سابقہ آسمانی کتابیں نازل ہوئی ہیں اور وہ ان کتابوں کو پڑھتے بھی ہیں۔ یعنی یہود و نصاریٰ، ان سے پوچھ کر اپنا شک دور کرسکتا ہے۔ اگرچہ یہود و نصاریٰ کی اکثریت ایسی تھی جو آپ پر ایمان نہیں لائے تھے تاہم ان میں کچھ انصاف پسند لوگ بھی موجود تھے جن میں سے کچھ ایمان لے آئے اور بعض نے بعض دوسری وجوہ کی بنا پر قبول نہیں کیا تھا پھر چونکہ اصولی لحاظ سے سب آسمانی کتابوں کی تعلیم ملتی جلتی ہے لہٰذا اہل کتاب میں سے بھی منصف لوگ یہ شہادت دے دیتے تھے کہ فی الواقع یہ آسمانی کتاب ہے۔ اور آپ کے اور صحابہ کے شک نہ کرنے کا عملی ثبوت یہ ہے کہ آپ نے یا صحابہ نے کبھی اہل کتاب سے یہ بات نہ پوچھی۔