قَالَ مُوسَىٰ أَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَكُمْ ۖ أَسِحْرٌ هَٰذَا وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ
موسیٰ نے کہا کیا تم حق کے بارے میں (یہ) کہتے ہو، جب وہ تمھارے پاس آیا، کیا جادو ہے یہ؟ حالانکہ جادو گر کامیاب نہیں ہوتے۔
[٩٠] سیدنا موسیٰ کا جواب، جادوگر اور نبی کا فرق :۔ فرعون اور اس کے درباریوں کے اس جواب پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ جس انداز میں میں تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں کیا جادوگروں کے بھی ایسے رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں؟ جو اگر تمہارے پاس آنا چاہیں تو پہلے واسطہ تلاش کرتے اور داخلے کی اجازت چاہتے ہیں پھر اگر وہ اس مرحلہ میں کامیاب ہو کر تم لوگوں تک پہنچ جائیں تو نہایت ذلت سے سر عجزو نیاز جھکائے تمہیں دعائیں دیتے اور آداب بجا لاتے ہیں۔ پھر شعبدہ دکھلانے کی اجازت چاہتے ہیں۔ پھر اس دھندہ سے فارغ ہوں تو پھر سلام کرتے اور انعام و اکرام کا مطالبہ کرتے ہیں اگر تم چاہو تو انھیں کچھ دو یا جھڑک کر کسی بھی مرحلہ پر نکال دو یا اندر آنے کی اجازت ہی نہ دو اور ان کی ساری زندگی اسی ذلت اور اسی دھندے میں گذر جاتی ہے اور ان کی ہوس ختم نہیں ہوتی تو کیا تمہیں ایک جادوگر میں اور مجھ میں کچھ بھی فرق نظر نہیں آتا ؟ (مزید وضاحت کے لیے دیکھیے جادو اور معجزہ کا فرق سورۃ اعراف، آیت نمبر ١٢٠) نیز ایک رسول اور جادوگر میں فرق کے لیے دیکھیے اسی سورۃ یونس کی آیت نمبر ٢)