وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ
اور ان پر نوح کی خبر پڑھ، جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اگر میرا کھڑا ہونا اور اللہ کی آیات کے ساتھ میرا نصیحت کرنا تم پر بھاری گزرا ہے تو میں نے اللہ ہی پر بھروسا کیا ہے، سو تم اپنا معاملہ اپنے شرکا کے ساتھ مل کر پکا کرلو، پھر تمھارا معاملہ تم پر کسی طرح مخفی نہ رہے، پھر میرے ساتھ کرگزرو اور مجھے مہلت نہ دو۔
[٨٤] اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی، سیدنا نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کو چیلنج :۔ مشرکوں کے پاس اپنے مذہب کی صداقت میں سب سے مؤثر جواب یہ ہوتا ہے کہ اگر تم لوگوں نے ان کے معبودوں یا اولیاء اللہ کی شان میں کوئی گستاخی کی بات کی یا ان کی توہین کی تو وہ تم پر فلاں فلاں مصیبت ڈھا دیں گے اور تباہ و برباد کرکے رکھ دیں گے ایسے عقائد کے وہ خود بھی معتقد ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی ڈراتے دھمکاتے رہتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ سیدنا نوح علیہ السلام سے لے کر آج تک بدستور چلا آرہا ہے آپ آج بھی اولیائے کرام کا کوئی تذکرہ اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو اس میں ایسی تہدید اور دھمکیاں مل جائیں گی کہ فلاں بزرگ کی فلاں شخص نے یوں توہین کی اس کا ستیاناس ہوگیا وغیرہ وغیرہ اور ایسے واقعات عموماً من گھڑت ہوتے ہیں جو ان پیروں کے حواری ان کی اولیائی کی دھاک بٹھانے کے لیے گھڑتے اور پھر شائع کردیتے ہیں یہی بات جب نوح علیہ السلام کو بھی کہی گئی تو انہوں نے اپنی قوم کے مشرکوں کو کھرا کھرا جواب دے دیا اور فرمایا : تم خود بھی اور تمہارے یہ معبود بھی سب مل کر میرا جو کچھ بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو اور مجھے مہلت بھی نہ دو کیونکہ میں اپنے اللہ پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اللہ پر پوری طرح بھروسہ رکھنے والا اللہ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈرتا اور اگر بالفرض تسلیم اسے کوئی تکلیف پہنچتی بھی ہے تو وہ تکلیف پہلے ہی اللہ کی مشیئت میں ہوتی ہے اس کا کسی معبود کی خدائی یا کسی بزرگ کی اولیائی سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔