سورة یونس - آیت 62

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

سن لو! بے شک اللہ کے دوست، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٧] اولیاء اللہ کی پہچان :۔ اولیاء اللہ کی تعریف اگلی آیت میں یہ بتلائی گئی ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں اور اللہ سے ڈرتے رہیں اور متقین کی صفات جو سورۃ بقرہ کی ابتداء میں بیان ہوئی ہیں وہ یہ ہیں وہ لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور اس کتاب یعنی قرآن اور سابقہ کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ گویا جن ایمان لانے والوں میں مذکورہ صفات پائی جائیں وہ سب اولیاء اللہ ہیں پھر چونکہ ایمان اور اتقاء کے بھی کئی درجے ہیں اس لحاظ سے اولیاء اللہ کے بھی کئی درجے ہوئے اور عرف عام میں اولیاء اللہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو ایمان و تقویٰ کے بلند درجات پر فائز ہوں اس کی مثال یوں سمجھیے کہ پچاس، سو روپیہ بھی مال و دولت ہے لیکن مالدار اسی شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس ہزاروں اور لاکھوں روپے اپنی ضروریات زندگی سے زائد موجود ہوں اسی لحاظ سے بعض صحابہ سے ولی کی یہ صفت منقول ہے کہ ولی وہ مسلمان ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آئے اور مخلوق خدا سے انھیں بے لوث محبت ہو۔ موجودہ دور میں اولیاء اللہ کا مفہوم :۔ قرن اول میں بھی کچھ ایسے مسلمان موجود تھے جن کی طبائع زہد و تقویٰ اور عبادت کی طرف زیادہ مائل ہوگئیں پہلی صدی اور دوسری صدی ہجری میں انھیں زہاد اور صالحین کا نام دیا جاتا تھا لیکن تیسری صدی میں جب مسلمانوں پر یونانی اور ہندی فلسفہ کے اثرات پڑنے لگے تو یہ طبقہ ترک دنیا اور رہبانیت کی طرف مائل ہوگیا اور اولیاء اللہ کا مفہوم یکسر بدل گیا اور یہ لفظ صرف ان لوگوں کے لیے مختص ہوگیا جو ریاضتیں اور چلہ کشیاں کریں اور باقاعدہ کسی شیخ یا ولی کی بیعت کے رشتہ میں منسلک ہوں اور ان سے کرامات کا ظہور ہو۔ پھر اس طبقہ میں وحدت الوجود، وحدت الشہود اور حلول جیسے غیراسلامی عقائد داخل ہوگئے اور ولی کی ولایت کا معیار یہ قرار پایا کہ جس کسی سے کرامات کا ظہور جتنا زیادہ ہو وہ اسی درجہ کا ولی ہے پھر ان لوگوں میں بعض نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ ہمیں براہ راست اللہ سے خبریں ملتی ہیں اور ہمیں رسول کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض نے شریعت کو ہڈیاں اور اپنے دین طریقت کو اصل مغز قرار دیا اور ولایت کے ایک باقاعدہ باطنی نظام کی داغ بیل رکھ دی۔ ان میں پیری مریدی لازمی قرار دی گئی اور یہ لوگ اپنے اس مخصوص طبقہ کو ہی برتر اور اولیاء اللہ قرار دینے لگے اور ان اولیاء اللہ کے علم غیب، تصرف اور ہیبت سے لوگوں کو ڈرایا جانے لگا اور ایسے نظریات مسلمانوں میں خوب شائع و ذائع کیے گئے۔ شرعی نقطہ نظر سے ایسے نظریات بالکل بے بنیاد ہیں۔ [٧٨] اولیاء اللہ کے لئے بشارت :۔ خوف کا لفظ کسی پیش آنے والے خطرہ کے لیے اور غم کا لفظ ماضی میں کسی چھن جانے والی نعمت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس بشارت کا اطلاق دونوں جہانوں میں ہوتا ہے یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ان اولیاء اللہ کا اپنے پروردگار پر اس قدر بھروسہ ہوتا ہے کہ انھیں نہ تو کسی چیز کا خوف خوفزدہ کرسکتا ہے اور نہ ہی انھیں ایسا غم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی سابقہ زندگی اللہ سے غفلت اور بیکار کاموں میں گذاری ہے یہی صورت آخرت میں بھی ہوگی انھیں نہ اس دن کی ہیبت، ہیبت زدہ کرے گی نہ پیاس ستائے گی اور نہ ہی اور کسی قسم کے دکھ یا عذاب کا خطرہ ہوگا اور نہ دنیا میں گزاری ہوئی زندگی کے متعلق کچھ حسرت اور ندامت ہوگی نہ کسی مطلوب چیز کے چھن جانے کا افسوس ہوگا۔