بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ
بلکہ انہوں نے اس چیز کو جھٹلا دیا جس کے علم کا انہوں نے احاطہ نہیں کیا، حالانکہ اس کی اصل حقیقت ابھی ان کے پاس نہیں آئی تھی۔ اسی طرح ان لوگوں نے جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے۔ سو دیکھ ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔
[٥٥] قرآن کے منزل من اللہ ہونے کے داخلی اور خارجی ثبوت :۔ کسی چیز کو جھٹلانے کے لیے دو طرح کے ثبوت درکار ہوتے ہیں ایک خارجی شہادت یا شہادات اور دوسرے داخلی شہادت یا شہادات۔ خارجی شہادت کی نفی تو اس طرح ہوتی ہے کہ کسی معترض نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کوئی شخص آپ کو آکر قرآن سکھلا جاتا تھا یا آپ قرآن سیکھنے کے لیے کبھی کسی کے پاس گئے ہوں یا یہ کام خط و کتابت یا قاصدوں کے ذریعہ سر انجام پاتا ہو اور داخلی شہادات کی نفی اس طرح ہوجاتی ہے کہ قرآن نے جو بھی خبر دی یا پیشین گوئی کی وہ کبھی جھوٹی ثابت نہیں ہوئی بلکہ تاریخ اور وقوع کے اعتبار سے درست ہی ثابت ہوئی ان دو وجوہ کو علمی یا یقینی قرار دیا جاسکتا ہے ان کے علاوہ اور کوئی معقول وجہ نہیں ہوسکتی جس کی بنا پر قرآن کو جھٹلایا جاسکے۔ [٥٦] تاویل کا مطلب اور اس کی مثالیں :۔ تاویل سے مراد کسی دی ہوئی خبر کے وقوع پذیر ہونے کا وقت ہے پھر جب وہ خبر وقوع پذیر ہوجاتی ہے تو اس وقت سب لوگوں کو اس کی پوری طرح سمجھ آجاتی ہے خواہ اس سے پیشتر اس آیت کی سمجھ لاعلمی کی وجہ سے نہ آرہی ہو یا ذہول و نسیان کی وجہ سے اور ایسی مثالیں بھی قرآن میں بہت ہیں جن میں سے یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کیا گیا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دار فانی سے رحلت فرما گئے تو یہ صدمہ صحابہ کرام کے لیے ایسا جانکاہ تھا کہ بعض صحابہ کے اوسان خطا ہوگئے دوسروں کا کیا ذکر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے زیرک اور مدبر صحابی کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے کہ’’جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں، میں اس کی گردن اڑا دوں گا‘‘ اتنے میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور لوگوں کو مخاطب کرکے یہ آیت پڑھی ﴿ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟یِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ﴾ ’’(یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی ہیں جن سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں اگر وہ فوت ہوجائیں یا مارے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟‘‘ صحابہ کہتے ہیں کہ جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ آیت سنائی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ آیت آج ہی نازل ہوئی ہے پھر جسے دیکھو یہی آیت پڑھ رہا تھا۔ حالانکہ یہ آیت مدتوں پہلے نازل ہوچکی تھی اور صحابہ سینکڑوں مرتبہ اسے پڑھتے بھی رہے مگر اس کی سمجھ اس وقت آئی جب آپ فی الواقع وفات پاگئے۔ مندرجہ بالا مثال ذہول سے متعلق ہے اور لاعلمی کی مثالیں وہ تمام سائنسی نظریات ہیں جو وحی سے متصادم ہیں مثلاً کائنات کا آغاز کیسے ہوا آدم کی تخلیق کیونکر ہوئی۔ زمین، سورج اور چاند کیسے وجود میں آئے۔ کائنات کا انجام کیا ہوگا ؟ ان باتوں کے متعلق ہئیت دانوں نے جو نظریات قائم کیے ہیں وہ محض ظن و تخمین پر مبنی ہیں اور ان کا علم بھی محدود ہے جبکہ وحی یقینی چیز ہے جو ایسی علیم و بصیر ہستی سے نازل ہوئی ہے جس کا علم لا محدود ہے اور بعض ایسے امور ہیں جن کی تاویل کا وقت آچکا ہے اور سائنس نے وحی کے آگے سرتسلیم خم کردیا ہے مثلاً سورج کو ساکن قرار دیا جاتا رہا مگر آج اسے متحرک سمجھا جاتا ہے آج یہ بھی تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ تمام انسانوں کی آوازیں فضا میں محفوظ ہیں اور یہ بھی کہ انسان کے اعمال کے اثرات اس کے جسم پر مترتب ہوتے ہیں یہی وہ بات ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ فرشتے انسان کے تمام اعمال لکھتے جاتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا پورا ریکارڈ موجود ہے۔