وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انھیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انھیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ کہہ دے کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں؟ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔
[٢٨] من دون اللہ کی سفارش؟ یعنی اللہ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جو کسی کی بگڑی کو بناسکے یا اسے کوئی فائدہ پہنچا سکے لہٰذا ایسا عقیدہ رکھ کر کسی دوسرے کی پرستش کرنا عبث ہے اور اس لحاظ سے کہ اس نے اللہ کی صفات میں دوسروں کو شریک کیا، بہت بڑا جرم بھی ہوتا ہے۔ اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کی پرستش کیوں کرتے ہو؟ تو کہتے ہیں کہ بے شک بڑا خدا تو ایک ہی ہے مگر ان دیوی دیوتاؤں کی پرستش اور انہیں خوش رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ جو تھوڑے بہت اختیار انہیں حاصل ہیں ان کے مطابق ہمارے کام درست کردیں اور جو نہیں ان کی سفارش کردیں اور اگر موت کے بعد دوسری زندگی کا سلسلہ ہوا تو وہاں بھی یہ ہماری سفارش کریں گے۔ [٢٩] عقیدہ سفارش مروجہ کی کوئی سند نہیں :۔ مشرکوں کا بتوں یا دیوی دیوتاؤں کے سامنے سجدہ ریز ہونے یا ان کی تعظیم بجا لانے کے متعلق عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دراصل ان پتھر کے مجسموں کی عبادت یا تعظیم نہیں کرتے بلکہ ان مجسموں کی ارواح کی تعظیم بجا لاتے ہیں جو ان کے عقیدہ کے مطابق ان مجسموں پر موجود رہتی ہیں اور یہ مجسمے بزرگوں کے بھی ہوتے ہیں۔ اللہ کی بیٹیوں اور بیٹوں کے بھی اور بعض فرشتوں کے بھی اور آج کا مسلمان یہی عقیدہ اپنے بزرگوں کی قبروں سے وابستہ کردیتا ہے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے جواب میں فرمایا کہ بتوں کا شفیع ہونا اور کسی شفیع کا مستحق عبادت ہونا یہ دونوں دعوے غلط اور بے اصل ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ کسی چیز کی اصل تو موجود ہو لیکن اللہ کو اس کا علم نہ ہو پھر کیا یہ مشرک اللہ کو ایسی خود تراشیدہ باتوں کی خبر دینا چاہتے ہیں جن کا زمین و آسمان میں کہیں وجود ہی نہیں پھر یہ کن سفارشیوں کی اللہ کو خبر دینے لگے ہیں۔