وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا ۙ وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تم سے پہلے بہت سے زمانوں کے لوگ ہلاک کردیے، جب انھوں نے ظلم کیا اور ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلیں لے کر آئے اور وہ ہرگز ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے۔ اسی طرح ہم مجرم لوگوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔
[١٩] قرن کے معنی ایک عہد کے لوگ ہیں اور یہاں قرون سے ایسی اقوام مراد ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں عروج حاصل کیا تھا اور اقوام عالم میں نامور شمار ہوئی تھیں اور ہلاک کرنے سے یہی مراد نہیں کہ ان پر کوئی ارضی و سماوی عذاب وغیرہ بھیج کر ان کی نسل تک کو تباہ کر ڈالا تھا بلکہ ہلاکت کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جتنا اس قوم نے عروج حاصل کیا تھا اتنا ہی وہ زوال پذیر ہوجائے حتیٰ کہ اتنی کہ قعرمذلت میں گرے اقوام عالم میں وہ شمار کے قابل بھی نہ رہے یعنی ان کے گناہوں کی پاداش میں بتدریج اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ [٢٠] ظلم کا مفہوم :۔ ظلم کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ اس کا اطلاق ہر گناہ اور زیادتی کے کام پر ہوسکتا ہے چنانچہ سب سے بڑے گناہ شرک کو ظلم عظیم کہا گیا ہے اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جب کوئی قوم سر نکالتی یا عروج حاصل کرتی ہے تو یہی وقت اس کے ظلم و زیادتی کا ہوتا ہے وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھ کر ان پر ہر جائز و ناجائز طریقے سے تسلط جمانا اپنا حق سمجھتی ہے اور اللہ کی یاد سے غافل ہو کر ہر گناہ کے کام کی مرتکب ہوتی ہے ایسے ہی اوقات میں اللہ تعالیٰ ان کے پاس اپنے رسول بھیجتا ہے مگر جو لوگ اپنی عیش و عشرت میں مست اور گناہوں کے کاموں میں مستغرق ہوں وہ بھلا رسولوں کی بات کیسے مانیں گے چنانچہ عموماً ایسی مجرم ضمیر قوموں نے رسولوں کا انکار ہی کیا اس طرح جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت پوری ہوجانے کے بعد بھی انہوں نے اپنا طرز زندگی نہ بدلا تو اللہ نے ان کے جرائم کی پاداش میں انہیں ہلاک کر ڈالا۔