الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
بدوی لوگ کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور زیادہ لائق ہیں کہ وہ حدیں نہ جانیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
[١٠٨] بدوی کافروں اور منافقوں کے خصائل :۔ جنگلوں، صحراؤں اور دیہاتوں میں رہنے والے بدوؤں کی تعداد شہری آبادی سے زیادہ تھی اور یہ سب ایسے لوگ تھے جن کے سامنے زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ماسوائے اس کے کہ کسی نہ کسی طرح شکم پروری کرلی جائے ان کی زندگی حیوانی زندگی کی سطح پر ہی ہوتی ہے اس سے زیادہ نہ انہیں کبھی سوچنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ وہ سوچ ہی سکتے ہیں۔ مدینہ میں جب اسلامی ریاست کی داغ بیل پڑگئی۔ تو انہیں بھی ایسی موٹی موٹی خبریں پہنچتی رہتی تھیں۔ ان لوگوں کا کوئی اخلاقی نظریہ تو ہوتا ہی نہیں۔ وہ صرف یہ دیکھ رہے تھے کہ ان مسلمانوں اور قریش مکہ میں جو محاذ آرائی شروع ہے تو ان میں سے کون غالب آتا ہے تاکہ جو فریق غالب آئے یہ بھی اس کے ساتھ لگ جائیں۔ اس طرح انہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام تو قبول کرلیا مگر یہ صرف چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے مترادف تھا۔ اس سے ان کے اخلاق یا مقاصد میں کوئی بلند نظری پیدا نہیں ہوئی تھی۔ دین کو سمجھنے کے معاملہ میں دیہاتی لوگ زیادہ اجڈ ہوتے ہیں :۔ وہ اسلام صرف اس لیے لائے تھے کہ اب اسلام لانے میں ہی انہیں زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن جو پابندیاں اسلام کی رو سے عائد ہوتی ہیں مثلاً نماز کا باقاعدہ اہتمام، زکوٰۃ کی ادائیگی، اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر اور برداشت وغیرہ ان باتوں کے لیے یہ لوگ ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ ایسے لوگوں کی طبیعت میں صحرائی زندگی کی وجہ سے اجڈ پن اور اکھڑ پن موجود ہوتا ہے پھر علم و حکمت کی مجلسوں سے دور رہنے کی وجہ سے تہذیب و شائستگی کا اثر اور علم و عرفان کی روشنی بہت کم قبول کرتے ہیں۔ اس لیے ان کا نفاق بھی شہری منافقوں کی نسبت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ پھر انہیں ایسے مواقع بھی کم ہی دستیاب ہوتے ہیں کہ اہل علم و اصلاح کی صحبت میں رہ کر دین اسلام کے وہ قاعدے اور قانون معلوم کریں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر پر نازل فرمائے ہیں۔ کیونکہ دین کا علم ہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل کو نرم کرتا ہے اور اسے مہذب بناتا ہے اور جو لوگ جہالت میں اس قدر غرق ہوں ان کے دلوں میں نہ نرمی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ شرعی احکام کی مصلحتوں کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔