يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ ۚ قُل لَّا تَعْتَذِرُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ ۚ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
تمھارے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کی طرف واپس آؤ گے، کہہ دے عذر مت کرو، ہم ہرگز تمھارا یقین نہ کریں گے، بے شک اللہ ہمیں تمھاری کچھ خبریں بتا چکا ہے، اور عنقریب اللہ تمھارا عمل دیکھے گا اور اس کا رسول بھی، پھر تم ہر پوشیدہ اور ظاہر چیز کو جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمھیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے۔
[١٠٦] عذر اور توبہ کے سچا ہونے کا معیار آئندہ کا عمل ہے :۔ کچھ منافق تو ایسے تھے جنہوں نے غزوہ تبوک پر روانگی سے پہلے ہی حیلے بہانے بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت طلب کرلی تھی۔ اور بہت سے ایسے تھے جو رخصت کے بغیر ہی مدینہ میں رہ گئے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئیں تو معذرت کرلی جائے۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو منافقین آنے لگے اور اپنے اپنے بہانے پیش کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ کی ہدایت کے مطابق کہہ دیا کہ پہلے جو کچھ تم نے کیا ہے وہ ہمیں معلوم ہوچکا ہے۔ اب آئندہ کے طرز عمل کی فکر کرو۔ تمہارا آئندہ کا طرز عمل ہی اس چیز کی وضاحت کرے گا کہ تم ان بہانوں میں کہاں تک سچے تھے۔