فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ
پھر جب اس نے انھیں اپنے فضل میں سے کچھ عطا فرمایا تو انھوں نے اس میں بخل کیا اور منہ موڑ گئے، اس حال میں کہ وہ بے رخی کرنے والے تھے۔
[٩٢] منافقوں کا زکوٰۃ کو تاوان سمجھنا :۔ یہ بھی کسی ایک شخص کی بات نہیں بلکہ منافقوں کی اکثریت ایسی ہی تھی کہ پہلے تو دعائیں مانگتے کہ ہم مال دار ہوجائیں پھر ہم اتنی اور اتنی خیرات کریں گے فلاں فلاں نیک کام کرینگے۔ اللہ کی شکر گزاری کریں گے۔ مگر جب ان پر اللہ اپنا فضل وکرم کرتا تو بخل کرنے لگتے اور یہ دعویٰ کرتے کہ یہ مال تو ہماری اپنی دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں منافق کی تین نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے اور ایک دوسری حدیث کے مطابق چوتھی علامت یہ ہے کہ جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔ حقیقت میں زکوٰۃ نہ دینے والا اور اس کا انکار کرنے والا پکا کافر ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ لوگ کافر ہوگئے ( اور زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ لوگوں سے کیونکر جہاد کریں گے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں۔ جب یہ کہنے لگیں تو انہوں نے اپنے مال اور جانیں مجھ سے بچالیں مگر حق کے ساتھ۔ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا میں تو اللہ کی قسم اس سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا۔ کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ واللہ! اگر یہ لوگ ایک بکری کا بچہ بھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے مجھے نہ دیں گے تو میں ان سے ضرور لڑائی کروں گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا اور میں جان گیا کہ حق یہی ہے۔ ( بخاری۔ کتاب الزکوۃ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ کوئی آدمی ایسا نہیں جو پانچوں نمازیں ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے مال کی زکوٰۃ نکالے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچے مگر اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ (جنت میں) داخل ہوجا۔ (سنن النسائی۔ باب وجوب الزکوۃ)