يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا ۚ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۚ فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۖ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
وہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انھوں نے بات نہیں کہی، حالانکہ بلاشبہ یقیناً انھوں نے کفر کی بات کہی اور اپنے اسلام کے بعد کفر کیا اور اس چیز کا ارادہ کیا جو انھوں نے نہیں پائی اور انھوں نے انتقام نہیں لیا مگر اس کا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انھیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔ پس اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا اور اگر منہ پھیر لیں تو اللہ انھیں دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب دے گا اور ان کے لیے زمین میں نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مدد گار۔
[٨٩] توہین رسالت کلمہ کفر ہے :۔ وہ کفر کا کلمہ کیا تھا جو ان منافقوں نے بکا تھا ؟ قرآن نے یہاں اس کی تصریح نہیں کی۔ یہ اس لیے کہ یہ کوئی ایک آدھ واقعہ نہ تھا بلکہ ان لوگوں نے کئی موقعوں پر ایسے کفر کے کلمے کہے تھے جیسا کہ روایات میں مذکور ہے مگر ہم اسی واقعہ پر اکتفا کریں گے جو سورۃ منافقون میں اجمالاً اور بخاری میں ذرا تفصیل سے مذکور ہے۔ سیدنا زید بن ارقم کہتے ہیں کہ ایک لڑائی میں (غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر جب مہاجرین اور انصار میں جھگڑا ہوگیا تو) میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا ’’لوگو! تم ایسے کرو کہ پیغمبر کے پاس جو لوگ (مہاجرین) جمع ہوگئے ہیں تم ان کو خرچ کے لیے کچھ نہ دو۔ وہ خودبخود اسے چھوڑ کر چلے جائیں گے اور اگر ہم لڑائی سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو عزت والا (یعنی عبداللہ بن ابی خود) ذلت والے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے اس کی یہ باتیں اپنے چچا (سعد بن عبادہ) سے یا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مجھے بلایا اور دریافت کیا تو میں نے ان باتوں کا اقرار کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا تو وہ مکر گئے اور قسمیں کھانے لگے کہ ہم نے ہرگز ایسا نہیں کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھوٹا سمجھا اور عبداللہ بن ابی کو سچا (کیونکہ وہ اور اس کے ساتھی بھی قسمیں کھا رہے تھے) مجھے اس بات کا اتنا رنج ہوا جتنا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ میں گھر میں بیٹھ رہا۔ میرے چچا کہنے لگے ’’ارے! یہ تم نے کیا کیا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جھوٹا سمجھا اور ناراض ہوئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورۃ منافقون نازل فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا بھیجا اور یہ سورۃ منافقون مجھے پڑھ کر سنائی۔ بعد میں فرمایا:زید اللہ نے تمہاری تصدیق فرما دی۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ المنافقون) [٩٠] منافقوں کی چند سازشیں جن میں وہ ناکام رہے :۔ ایسے واقعات بھی بے شمار ہیں جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں مثلاً ایک وہی واقعہ جو اوپر بیان ہوا۔ دوسرے ہر جنگ میں ان کی قریش مکہ سے یا یہودیوں سے سازباز رہتی تھی کہ مسلمانوں کو شکست سے دو چار ہونا پڑے وہ اس مقصد میں بھی ناکام رہے۔ تیسرے انہوں نے اپنی خفیہ سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کے لیے مسجد ضرار کی شکل میں ایک پرفریب اڈا تعمیر کیا تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک سے واپسی پر فوراً بحکم الٰہی آگ لگوا کر تباہ کردیا اور چوتھے اس غزوہ تبوک کی مناسبت سے وہ واقعہ ہے جو اس سفر سے واپسی کے دوران پیش آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ کی ناکام سازش :۔ اور جس میں منافقوں نے معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردینے کی سازش تیار کر رکھی تھی اور ان سازشیوں کو بعد میں اہل عقبہ (گھاٹی والے) کا نام دیا گیا۔ ان کا پروگرام یہ تھا کہ رات کے وقت پہاڑی کے دشوار گزار رستوں پر چلتے چلتے گھاٹی کی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لشکر سے الگ لے جا کر اچانک آپ پر حملہ کردیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سواری سے اٹھا کر نیچے گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے اور اس واقعہ کی کسی کو خبر بھی نہ ہو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی پر پہنچے تو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ سارے لشکر میں منادی کر دے کہ کوئی شخص گھاٹی کی طرف نہ آئے اور بطن وادی کی طرف سے جائے جو آسان اور کھلا راستہ ہے۔ اس وقت سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو آگے سے پکڑے چل رہے تھے اور سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ پیچھے سے چلا رہے تھے اس اعلان پر سب مسلمانوں نے بطن وادی کی راہ لی مگر یہ منافقین صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے حکم کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ناپاک ارادہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے درپے تھے اچانک چار منافق اپنے چہروں پر ڈھاٹے باندھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حذیفہ کو حکم دیا کہ ان منافقوں کی سواریوں کے چہروں پر کاری ضربیں لگائیں۔ انہوں نے اپنی ڈھال سے ان کی سواریوں کے چہروں پر زور دار حملے کیے، ساتھ ہی یہ کہتے جاتے تھے ’’اللہ کے دشمنو! دفع ہوجاؤ۔‘‘ سیدنا حذیفہ کی اس پکار سے منافقوں کو معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ارادہ کی اطلاع ہوچکی ہے۔ لہٰذا یہ لوگ جلدی جلدی مسلمانوں کے لشکرسے جا ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان منافقوں اور ان کے باپوں تک کے نام سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بتلا دیئے تھے اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ان کے نام کسی کو نہ بتلائے جائیں۔ سیدنا حذیفہ ان منافقوں کو پوری طرح پہچانتے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ راز افشا نہیں کرتے تھے اسی لیے آپ کو ’’رازدان رسول‘‘ کہا جاتا ہے۔ صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث اس واقعہ پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔ ایک دفعہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ اور عقبہ والوں میں سے ایک شخص کے درمیان جھگڑاہو گیا۔ اس شخص نے کہا’’میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ عقبہ والے کتنے تھے؟ لوگوں نے سیدنا حذیفہ کو کہا کہ جب وہ پوچھتا ہے تو آپ بتلا دیجئے۔ سیدنا حذیفہ کہنے لگے’’ہمیں خبر دی گئی ہے کہ وہ چودہ تھے اور اگر تو بھی ان میں شامل تھا تو پندرہ تھے اور میں اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے بارہ تو دنیا اور آخرت میں اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں۔ باقی رہے تین تو انہوں نے عذر کیا تھا کہ ہم نے اللہ کے رسول کی منادی کی آواز نہیں سنی تھی۔ اور نہ ہمیں یہ معلوم ہوسکا کہ ان لوگوں کا ارادہ کیا تھا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب صفۃ المنافقین واحکامھم ) [٩١] مسلمانوں کے ساتھ ساتھ منافقوں کی بھی آسودگی :۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو اس وقت مدینہ کی معیشت پر یہودی چھائے ہوئے تھے۔ وہ مالدار اور سودخوار قوم تھی۔ تجارت ان کے ہاتھ میں تھی۔ وہی جنگی آلات بناتے اور بیچتے تھے۔ علاوہ ازیں شراب کا کاروبار بھی کرتے تھے۔ اس معاشی برتری کے ساتھ ساتھ اوس اور خزرج کو آپس میں لڑا کر سیاسی برتری بھی انہوں نے حاصل کر رکھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو یہ سیاسی برتری یہود کے بجائے مسلمانوں کے حصہ میں آ گئی۔ مواخات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے مسلمانوں کی معیشت سنبھلتی گئی۔ پھر اموال غنیمت سے مسلمان آسودہ ہوگئے اور ان سب باتوں میں منافق بھی حصہ دار تھے۔ اللہ تعالیٰ منافقوں سے یہ فرما رہے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی وجہ سے تو تمہیں آسودگی حاصل ہوئی ہے پھر اگر انہی سے دشمنی کر کے ان سے نمک حرامی کا ثبوت دو گے تو تمہیں دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب بھگتنا پڑے گا۔