يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ مشرک لوگ ناپاک ہیں، پس وہ اپنے اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں اور اگر تم کسی قسم کے فقر سے ڈرتے ہو تو اللہ جلد ہی تمھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا، اگر اس نے چاہا۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
[٢٦] مشرکوں کے جانے سے میدان معیشت میں خلا کا خدشہ :۔ اس آیت میں مشرکوں کو ناپاک کہا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فی ذاتہ ناپاک ہوتے ہیں کہ ان سے اگر ہاتھ لگ جائے تو ہاتھ دھونا پڑے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے عقائد ناپاک اور گندے، اخلاق ناپاک اور نیتوں میں ہر وقت فتور اور مکر و فریب اور اعمال گندے ہیں۔ جو ہر وقت اسلام دشمنی، مسلمانوں پر ظلم و تشدد اور معاندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس آیت کی رو سے مسلمانوں کو واضح حکم دے دیا گیا کہ اب مشرکین بیت اللہ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ مکہ جہاں ایک مقدس مقام تھا وہاں تجارتی مرکز بھی تھا اور یہ تجارت زیادہ تر مشرکین مکہ کے ہاتھ میں تھی۔ لہٰذا مکہ اور اس کے آس پاس بسنے والے بالخصوص نو مسلموں کو خدشہ لاحق ہوا کہ اب ضروریات کیسے پوری ہوں گی۔ نیز ذرائع روزگار بھی متاثر ہونے کا اندیشہ تھا۔ اللہ نے ان مسلمانوں کو تسلی دی اور اس خدشہ کا مداوا یوں ہوا کہ مسلمانوں نے معیشت کے سارے میدان خود سنبھال لیے جن میں اللہ نے برکت عطا فرمائی اور مسلمانوں کو غنی بنا دیا۔ اس صورت حال کا صحیح اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان بننے کے وقت ١٩٤٧ ء میں ہندو لوگ، جن کے ہاتھ میں معیشت کی باگ ڈور تھی، پاکستان کو چھوڑ کر ہندوستان جا رہے تھے اور زندگی کے ہر میدان میں اور بالخصوص معیشت کے میدان میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا تو عرصہ تک تجارتی منڈیاں ہی بند رہیں آخر مسلمانوں نے ان منڈیوں کو سنبھال لیا تو اللہ نے انہیں بہت جلد غنی کردیا۔