قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
کہہ دے اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
[٢٢] دنیوی مرغوبات میں پھنس کر جہاد چھوڑنے کی سزا :۔ اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے اور بعض مسلمانوں کے باپ یا بیٹے یا بیویاں کافر تھیں جنہیں چھوڑ کر ہجرت کرنا مشکل سی بات تھی۔ اسی طرح انسان کو اپنے کمائے ہوئے مال و دولت، اپنے کاروبار سے اور جائیداد سے بھی بہت محبت ہوتی ہے کیونکہ یہ چیزیں اس کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی کے نتیجہ میں اسے حاصل ہوتی ہے لہٰذا انہی چیزوں سے مومنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے کہ آیا وہ ان چیزوں کو چھوڑ کر دین کی خاطر ہجرت اور جہاد کرتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت اس معیار پر بھی پوری اتری۔ تھوڑے ہی مسلمان ایسے تھے جو انہی فطری کمزوریوں کی وجہ سے مکہ میں یا اطراف و جوانب میں رہ گئے تھے اس آیت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ان کمزوریوں کو دور نہ کیا اور اپنی جانوں اور اموال سے جہاد کرنے میں کوتاہی کی اور رشتہ داروں کی محبت، تن آسانی اور دنیا طلبی کی راہ اختیار کی اور خواہشات نفس میں پھنس کر اللہ کے احکام کی تعمیل نہ کی تو تمہیں حقیقی کامیابی نصیب نہ ہوگی۔ اور حدیث میں ہے کہ جب تم جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جس سے تم کبھی نکل نہ سکو گے۔ (ابن ماجہ۔ کتاب الجہاد، باب التغلیظ فی الجھاد )