مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ
مشرکوں کا کبھی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں، اس حال میں کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی شہادت دینے والے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے اعمال ضائع ہوگئے اور وہ آگ ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
[١٥] مشرکین مکہ کن کن باتوں سے بیت اللہ کی توہین کرتے تھے؟:۔ یعنی کعبہ یا کسی بھی مسجد کی تولیت، مجاوری اور آباد کاری مشرکوں کے لیے مناسب ہی نہیں۔ کعبہ خالصتاً اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا اور ایسے ہی دوسری مساجد بھی اسی غرض کے لیے بنائی جاتی ہیں لیکن یہ مشرک بیت اللہ میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے تھے۔ چنانچہ مشرکوں نے اللہ کے اس گھر میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ دیواروں پر اپنے بزرگوں اور دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بنا رکھی تھیں۔ اور ان ظالموں نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے مجسمے بنا کر ان کے ہاتھوں میں فال گیری کے تیر پکڑا رکھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد بیت اللہ کو ان سب چیزوں سے پاک کیا۔ پھر بیت اللہ میں ایسی فحاشی روا رکھی جاتی کہ کیا مرد کیا عورت ننگے طواف کرتے تھے۔ پھر یہ ظالم طواف کے دوران یہ الفاظ کہہ کر اپنے شرک کی شہادت دیتے تھے لاَشَرِِیْکَ لَکَ الاَّ شَرِیْکَ ھُوَلَکَ تَمْلِکُہُ (مسلم۔ کتاب الحج) ان کی نظروں میں سرے سے بیت اللہ کے احترام کا تصور ہی نہ تھا حتیٰ کہ انہوں نے اپنی عبادت کو سیٹیوں، تالیوں اور گانے بجانے کی محفلیں بنا رکھا تھا۔ پھر کیا ایسے لوگ مساجد کی آباد کاری اور سرپرستی کے مستحق ہو سکتے ہیں؟ [١٦] کیونکہ اعمال کی جزا کا انحصار اللہ اور روز آخرت پر ایمان ہے اور مشرک تو روز آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتے تھے اور اللہ پر ایمان کے معاملہ میں ان کا تصور ہی غلط تھا۔ انہوں نے سب خدائی اختیارات و تصرفات تو اپنے دیوی دیوتاؤں اور بزرگوں کو دے رکھے تھے لہٰذا ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان کے اچھے اعمال ضائع ہوں گے اور شرک اور بداعمالی کی وجہ سے ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہوگا۔