بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ
اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ان مشرکوں کی طرف بری الذمہ ہونے کا اعلان ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا۔
[١] سورۃ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ :۔ سورۃ توبہ کا نام سورۃ برأت بھی ہے جو اس سورۃ کا ابتدائی لفظ ہے۔ یہ سورۃ برأت، سورۃ انفال کے بہت بعد یعنی ٩ ہجری میں نازل ہوئی لیکن چونکہ ان دونوں کے مضامین آپس میں بہت حد تک ملتے جلتے ہیں اور یہ سب مضامین کافروں، مشرکوں سے جنگ، معاہدات، صلح اور اسلام کی سربلندی سے متعلق ہدایات و احکام پر مشتمل ہیں لہٰذا ان کو یکجا کردیا گیا ہے اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی جاتی۔ جو کہ دو سورتوں کی الگ الگ ہونے کی علامت ہے۔ نہ ہی اس سورۃ کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل ہوئی۔ نہ ہی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی اور وہی دستور آج تک مصاحف کی کتابت میں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ [٢] مشرکین سے اعلان براءت :۔ رمضان ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوگیا تو مسلمانوں پر سے وہ پابندیاں از خود اٹھ گئیں جو مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے بیت اللہ شریف میں داخلہ، عبادات، طواف اور حج و عمرہ پر لگا رکھی تھیں۔ ٨ ہجری میں تو مسلمان حج کر ہی نہ سکے۔ کیونکہ فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین اور طائف سے واپس مدینہ پہنچنے تک اتنا وقت نہ رہا تھا کہ مسلمان حج کے لیے مدینہ سے آتے۔ ٩ ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حج کے لیے بھیجا اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس قافلہ حج کا امیر مقرر کردیا۔ ابھی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشرکوں کے داخلہ پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی تھی۔ لہٰذا اس حج میں مشرکین بھی شریک تھے۔ مسلمانوں نے اپنے طریقہ پر حج ادا کیا اور مشرکین نے اپنے طریقہ پر۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بعد اس سورۃ کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ جن کی بنا پر مشرکین سے صرف بیت اللہ شریف میں داخلہ پر ہی پابندی نہ لگائی گئی بلکہ ان سے مکمل برأت کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان کی اہمیت کے پیش نظر آپ نے یہ بہتر سمجھا یا مدینہ میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے آپ کو یہ مشورہ دیا کہ یہ اعلان آپ کے کسی قریبی رشتہ دار کی طرف سے ہونا چاہیے جو مشرکوں کی نگاہ میں آپ ہی کے قائم مقام سمجھا جا سکے چنانچہ ان آیات کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی بھیج دیا کہ وہ حج کے اجتماع عظیم میں ان آیات کا اعلان کردیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے :۔ ١۔ کعبہ کا ننگے طواف کرنا :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس حج میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دسویں تاریخ کو دوسرے منادی کرنے والوں کے ساتھ مجھے بھی بھیجا تاکہ یہ منادی کریں کہ ’’اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ ہی کوئی ننگا ہو کر طواف کرے۔‘‘ حمید بن عبدالرحمن (ایک راوی) کہتے ہیں کہ (ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو روانہ کرنے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی روانہ کیا اور انہیں بھی حکم دیا کہ سورۃ برأت (کافروں کو) سنا دیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی ہمارے ساتھ منیٰ میں برأت کی منادی کی اور کہا کہ’’اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور نہ کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ اعلان برا ءت کی چار دفعات :۔ زید بن یثیَعْ کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حج میں تمہیں کیا پیغام دے کر بھیجا گیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ چار باتیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ دوسرے جس کافر کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ صلح ہے وہ مدت مقررہ تک بحال رہے گا۔ اور تیسرے جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہے یا تو وہ اسلام لے آئیں اور وہ جنت میں داخل ہوں گے یا پھر یہاں سے چلے جائیں اور چوتھے یہ کہ اس سال کے بعد مشرک اور مسلمان (حج میں) جمع نہ ہوں گے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٣۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حج اکبر کے دن کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قربانی کا دن‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) صاف دل سے معاہدہ کرنے والے مشرک قبائل کو رعایت :۔ چنانچہ دس ذی الحجہ کو حج اکبر یعنی یوم نحر کے دن یہ اعلان پہلے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منیٰ کے مقام پر کیا۔ پھر اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کیا اور اس کی اہم دفعات چار تھیں۔ (١) آئندہ کبھی کوئی شخص ننگا ہو کر طواف نہ کرسکے گا۔ ایسی فحاشی کعبہ کے اندر کسی صورت پر برداشت نہیں کی جا سکتی۔ جبکہ مشرک ننگا ہو کر طواف کرنے کو اپنے خیال کے مطابق بہتر سمجھتے اور کہتے کہ اس میں زیادہ انکساری پائی جاتی ہے۔ (٢) مشرکین کا کعبہ کا متولی ہونا تو درکنار، وہ اس سال کے بعد کعبہ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ جیسا کہ اسی سورۃ کی آیت نمبر ٢٨ میں اس کی وضاحت موجود ہے (٣) جن مشرکوں سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ صلح نہیں انہیں چار ماہ کی مدت دی جاتی ہے۔ اس مدت میں وہ خوب سمجھ لیں کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کو تیار ہیں یا یہ ملک چھوڑ کر نکل جانا چاہتے ہیں یا اسلام لانا چاہتے ہیں اور اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ بھی ان شاء اللہ جنت میں داخل ہوں گے اس دفعہ میں وہ مشرک قبائل بھی شامل ہیں جو صلح کا معاہدہ تو کرلیتے تھے مگر صلح کی شرائط ہی ایسی طے کرتے تھے کہ ان کے لیے فتنہ اور نقض عہد کی گنجائش باقی رہے یعنی ایسے قبائل جن کی طرف سے مسلمانوں کو عہد شکنی یا فتنہ انگیزی کا خطرہ تھا ان کا ایسا عہد بھی اس اعلان کے ذریعہ ختم کردیا گیا۔ جیسا کہ سورۃ انفال کی آیت نمبر ٥٨ میں حکم دیا گیا ہے۔ (٤) اور جن مشرک قبائل نے صدق دل سے مسلمانوں سے معاہدہ امن کر رکھا ہے انہوں نے نہ کبھی بدعہدی کی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کو ان کی طرف سے کچھ خطرہ ہے۔ ایسے مشرک قبائل کو معاہدہ کے اختتام تک مہلت دی گئی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو دوسرے مشرک قبائل کے ساتھ ہوگا اور ایسے صاف نیت قبائل صرف تین تھے : بنو خزاعہ، بنو کنانہ اور بنو ضمرہ۔ جنہوں نے نہ خود عہد شکنی کی تھی اور نہ ہی علی الاعلان یا درپردہ مسلمانوں کے خلاف کسی دوسرے کی حمایت کی تھی۔