إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے جگہ دی اور مدد کی، یہ لوگ! ان کے بعض بعض کے دوست ہیں، اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت نہ کی تمھارے لیے ان کی دوستی میں سے کچھ بھی نہیں، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر وہ دین کے بارے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر مدد کرنا لازم ہے، مگر اس قوم کے خلاف کہ تمھارے درمیان اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ ہو اور اللہ اسے جو تم کر رہے ہو، خوب دیکھنے والا ہے۔
[٧٤] ولی کا مفہوم۔۔ مواخات اور وراثت :۔ ولی کا لفظ عربی لغت میں بہت وسیع المعنی ہے اور اس کے معنی دوست، حمایتی، مددگار، سرپرست، وارث، پشتیبان اور قریبی رشتہ دار سب معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد عموماً ایسا شخص ہوتا ہے جو کسی کی موت یا مصیبت کے وقت مدد یا دیت کی ادائیگی یا وراثت کے لحاظ سے سب سے قریب تر ہو۔ ان آیات میں دارالاسلام اور دارالحرب میں رہنے والے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کے متعلق احکام بیان کیے جا رہے ہیں۔ جو مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچ رہے تھے۔ ان کا ایک بنیادی مسئلہ ان کی آبادکاری اور فکر معاش کا تھا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات یا بھائی چارہ کا سلسلہ قائم کیا اور بروایت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں مختلف اوقات میں تین مجلسوں میں تقریباً تینتالیس مہاجرین اور انصار کو مواخات کے سلسلہ میں منسلک کردیا۔ یعنی ایک مہاجر کو ایک انصاری کے ساتھ ملا کر انہیں بھائی بھائی بنا دیا اور اس مہاجر کے مسائل اور بنیادی ضروریات کو اس انصاری کے ذمہ ڈال دیا۔ جسے انصار نے نہایت وسیع الظرفی اور خوشدلی کے ساتھ قبول کرلیا اور یہ بھائی چارہ یا ولایت اس درجہ تک بڑھی کہ اصلی وارثوں کو چھوڑ کر یہی بھائی ایک دوسرے کے ولی اور وارث ہوتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر زیر آیت ﴿وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِیْبَھُمْ ﴾اب یہ تو ظاہر ہے کہ اس وقت دارالاسلام صرف مدینہ تھا۔ جہاں مکہ اور دیگر اطراف سے مسلمان ہجرت کر کے پہنچ رہے تھے اور مدینہ کے سوا باقی سارا عرب دارالحرب یا دارالکفر تھا۔ جبکہ مسلمان مکہ اور دیگر اطراف میں بھی موجود تھے۔ اس پس منظر میں اس سورۃ انفال کی آخری چار آیات میں دارالاسلام کے مسلمانوں کے آپس میں تعلقات بیرونی مسلمانوں سے تعلقات اور حکومتوں کے باہمی معاہدات سے احکام دیئے گئے ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ دارالحرب اور دارالاسلام میں رہنے والے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی مختلف صورتیں اور اسلام کی خارجہ پالیسی :۔ ١۔ انصار اور مہاجرین جو مدینہ آ چکے ہیں۔ یہ سب مواخات کی رو سے، ایک دوسرے کے ولی بھی ہیں اور وارث بھی جیسا کہ سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣٣ سے بھی واضح ہوتا ہے۔ ٢۔ اور جو مسلمان ہجرت کر کے مدینہ نہیں پہنچے۔ وہ نہ تمہارے ولی یا وارث ہیں اور نہ تم ان کے ولی یا وارث ہو سکتے ہو تاآنکہ وہ ہجرت کر کے تمہارے پاس نہ پہنچ جائیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دارالحرب میں رہنے والا مسلمان دارالاسلام میں رہنے والے مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا اور اس کے برعکس بھی۔ جیسا کہ ایک مسلمان کافر کا یا کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا۔ ٣۔ دارالاسلام میں رہنے والے مسلمانوں یا ان کی حکومت پر دارالحرب میں رہنے والے مسلمانوں سے متعلق کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اس حکم کے مطابق ان تمام بین الاقوامی تنازعات کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ جہاں کوئی حکومت کسی دوسری حکومت میں بسنے والی اقلیت کی ذمہ داریاں اپنے سر لیتی ہے۔ ٤۔ اگر دارالحرب میں بسنے والے مسلمانوں پر زیادتی اور ظلم روا رکھا جا رہا ہو اور وہ دارالاسلام کے مسلمانوں یا ان کی حکومت سے اس کے مقابلہ میں مدد طلب کریں تو دارالاسلام کے مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ ٥۔ اور اگر مدد طلب کرنے والے مسلمان کسی ایسے ملک میں بستے ہوں۔ جس کا اسلامی حکومت سے معاہدہ امن و آشتی طے پا چکا ہو تو اس صورت میں مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے بین الاقوامی معاہدہ کا پاس رکھنا زیادہ ضروری ہے اور مسلمانوں کی مدد مانگنے کے باوجود ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔ ٦۔ البتہ ایسے مسلمان جو اس معاہدہ کرنے والی اسلامی حکومت کی حدود سے باہر رہتے ہیں۔ وہ اس اضافی پابندی کے ذمہ دار نہیں۔ وہ چاہیں تو ایسے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرسکتے ہیں اور جس طرح چاہیں کرسکتے ہیں۔ معاہدہ کرنے والی اسلامی حکومت ان کے بارے میں مسؤل نہیں ہوگی۔