الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ
اب اللہ نے تم سے (بوجھ) ہلکا کردیا اور جان لیا کہ یقیناً تم میں کچھ کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آئیں اور اگر تم میں سے ہزار ہوں تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
[٦٩] مسلمانوں میں بعد میں کمزوری کی وجہ پہلے حکم کی منسوخی نہیں بلکہ حالات ہیں :۔ اگرچہ یہ آیت اور اس سے پہلی آیت ایک ساتھ رکھی گئی ہیں۔ مگر ان دونوں کے زمانہ نزول میں کافی مدت کا فرق ہے اور انہیں صرف مضمون کی مناسبت سے اکٹھا رکھا گیا ہے۔ پہلی آیت کا زمانہ نزول تو غزوہ بدر کے بعد کا ہے۔ جبکہ اس سورۃ کا بیشتر حصہ نازل ہوچکا تھا۔ اور دوسری آیت کے زمانہ نزول کے متعلق حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم یہ غزوہ حنین اور اس کے مابعد کا زمانہ معلوم ہوتا ہے۔ فتح مکہ کے موقعہ پر جو لوگ مسلمان ہوئے وہ ابتدا سے اسلام لانے والوں جیسا حوصلہ نہیں رکھتے تھے اور اس ضعف کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ مسلمان ابتداءً اقلیت میں تھے اور اقلیت کو اپنی بقاء کی خاطر بھی اکثریت کے مقابلہ میں بہت زیادہ چاک و چوبند اور جرأت مند بن کر رہنا پڑتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مہاجرین اور سابقین انصار کی جس انداز میں تربیت ہوئی تھی ان میں سے کچھ مدت کے بعد بہت سے افراد بوڑھے اور کمزور ہوگئے اور کچھ شہید ہوگئے یا وفات پا گئے اور جو لوگ نئے مسلمان ہوئے یا جو نئی پود سامنے آئی ان میں پرانے مہاجرین و انصار جیسی بصیرت، استقامت اور جرأت نہ تھی۔ مزید برآں تعداد میں کثرت سے اللہ پر توکل میں کمی واقع ہوجانا یا کثرت تعداد پر اترانے لگنا طبیعت انسان کا خاصہ ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں پر جب ایک آدمی کو دس آدمیوں پر غالب آ جانے کا حکم گراں گزرنے لگا تو اللہ نے اس حکم میں تخفیف کردی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب پہلا حکم منسوخ یا ساقط العمل ہوگیا ہے۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ جب ان نومسلموں کی پوری طرح تربیت ہوجائے اور ان کی ایمانی قوت پوری طرح پختہ ہوجائے تو پھر سابقہ حکم ہی نافذ العمل ہوگا۔ چنانچہ دور نبوی کی آخری جنگوں میں عملاً ایسا ہوا بھی تھا۔ ایک جنگ میں ایک ہزار مسلمانوں نے (80) اسی ہزار کافروں کا مقابلہ کیا اور جنگ مؤتہ کے موقع پر تین ہزار مسلمان ایک لاکھ کافروں کے مقابلہ میں ڈٹے رہے اور یہ نسبت ایک اور دس کی نسبت سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ پھر خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی ایسی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں۔ البتہ اس تخفیف والی آیت سے علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ اگر کافروں کی تعداد دگنی یا اس سے کم ہو تو اس صورت میں جنگ سے فرار حرام ہے۔ ویسے بھی مسلمانوں کا تخفیف والی آیت پر ہی انحصار کرلینا ان میں صبر اور برداشت کی کمی کا باعث بن جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ تخفیف کا منفی نتیجہ :۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : جب یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہارے بیس صابروں کو دو سو پر غالب آنا چاہیے تو یہ مسلمانوں پر گراں گزری۔ جب کہ اللہ نے مومنوں پر یہ فرض کیا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلہ میں نہ بھاگے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تخفیف فرما دی اور فرمایا کم از کم سو کو دو سو کے مقابلہ میں ضرور غالب آنا چاہیے۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے شمار میں کمی کردی تو اتنا ہی مسلمانوں میں صبر بھی کم ہوگیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)