فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
پس اگر کبھی تو انھیں لڑائی میں پا ہی لے تو ان (پر کاری ضرب) کے ساتھ ان لوگوں کو بھگا دے جو ان کے پیچھے ہیں، تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔
[٦٠] یہود مدینہ کی لاف زنی اور بزدلی اور انجام :۔ یہود مسلمانوں سے معاہدہ امن و آشتی کے باوجود اپنی شرارتوں، فتنہ انگیزیوں اور عہد شکنیوں سے باز نہیں آتے تھے۔ بڑ مارنے اور شیخیاں بگھارنے میں بڑے ماہر تھے۔ مگر بزدل انتہا درجہ کے تھے غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ ان کے بازار واقع محلہ بنو قینقاع میں تشریف لے گئے اور یہود کو جمع کر کے انہیں ان کی ایسی شر انگیز حرکتوں پر عار دلائی اور فرمایا کہ ایسے کاموں سے باز آ جاؤ اور اسلام قبول کرلو تو تمہارے حق میں بہتر رہے گا۔ ورنہ تمہیں بھی ایسی ہی مار پڑے گی جیسی قریش مکہ کو پڑچکی ہے۔ اس دعوت کا انہوں نے انتہائی توہین آمیز جواب دیا اور کہنے لگے۔ تمہارا سابقہ قریش کے اناڑی لوگوں سے پڑا تھا اور تم نے میدان مار لیا۔ ہم سے پالا پڑا تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔ ان کا یہ جواب دراصل معاہدہ امن کو توڑنے اور اعلان جنگ کرنے کے مترادف تھا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر سے کام لیا۔ پھر انہی دنوں یہودیوں نے انصار کی ایک عورت کو ننگا کردیا جس پر مسلمانوں اور بنو قینقاع میں بلوہ ہوگیا۔ اب ان سے جنگ کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر ان کے ہاں جا پہنچے تو یہ جوانمردی کی ڈھینگیں مارنے والے اور قریش کو بزدلی کا طعنہ دینے والے یہود سامنے آنے کی جرأت ہی نہ کرسکے اور فوراً قلعہ بند ہوگئے۔ پندرہ دن تک قلعہ میں محصور رہنے کے بعد ہتھیار ڈال دیئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قید کرنے کا حکم دیا۔ پھر عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین جس سے ان یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ ساز باز رہی، کی پرزور سفارش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قید معاف کردی اور جلاوطن کردیا اور یہ لوگ شام کو چلے گئے۔ اس کے بعد اسی طرح بنو نضیر جلاوطن ہوئے۔ پھر جنگ خندق کے بعد بنو قریظہ بھی قلعہ بند ہوئے جو بالآخر قتل کئے گئے اور بچے اور عورتیں غلام بنائے گئے۔ خیبر کے موقعہ پر بھی یہود قلعہ بند ہوگئے۔ غرض جب بھی لڑائی کا موقعہ پیش آیا تو ان یہود کو کھلے میدان میں مسلمانوں سے لڑنے کی کبھی جرأت ہی نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ غزوہ احد اور غزوہ خندق کے موقعہ پر کفار کے ساتھ مل کر بھی انہیں کھلے میدان میں سامنے آنے کی جرأت ہی نہ ہوئی۔ یہ لوگ ہمیشہ سازشوں، شرارتوں، فتنہ انگیزیوں اور عہد شکنیوں سے ہی مسلمانوں کو پریشان کرتے رہے تاہم انہیں وہ سزا ملتی ہی رہی جو اس آیت میں مذکور ہے۔