وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ بے شک تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو تو بے شک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن نازل کی، جس دن دو جماعتیں مقابل ہوئیں اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔
[٤٣] اللہ اور اس کے رسول کے پانچویں حصہ کی تقسیم کیسے ہوگی؟:۔ اس آیت میں اس سوال کا تفصیلی جواب دیا جا رہا ہے۔ جس سے اس سورۃ کی ابتدا ہوئی تھی۔ وہاں صرف اتنا جواب دیا گیا کہ چونکہ یہ فتح خالصتاً اللہ کی امداد کے نتیجہ میں حاصل ہوئی تھی اس لیے سب اموال زائدہ (غنیمت سمیت) اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ لہذا تمہیں آپس کا نزاع فوری طور پر بند کردینا چاہیئے اور تفصیلی جواب یہ ہے کہ اموال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا اور باقی ٥/٤ حصہ مجاہدین کا ہے۔ چنانچہ غنیمت کا مال پورے کا پورا ایک جگہ اکٹھا کیا گیا اور اس کا ٥/٤ حصہ جہاد میں حصہ لینے والے مجاہدین میں برابر تقسیم کردیا گیا۔ اب جو اللہ اور اس کے رسول کا پانچواں حصہ تھا اس کے پانچ مصرف بیان فرمائے۔ تاہم ان حصوں میں کمی بیشی اور تقسیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی۔ اس میں جو اللہ کا حصہ ہے یعنی پانچویں کا پانچواں حصہ یہ جہاد کی ضرورتوں اور مساجد کی تعمیر اور دیکھ بھال پر خرچ ہوگا، اور رسول کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو یا خانگی ضروریات کے لیے مقرر ہوا۔ کیونکہ دینی مصروفیات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی دوسرا کام کاج نہ کرسکتے تھے۔ تیسرا حصہ آپ کے رشتہ داروں یعنی بنی ہاشم، یا بنوعبد مناف کا تھا اور ان میں سے جس کو مستحق سمجھتے تھے اور جتنا سمجھتے دے دیتے تھے یہ اس لیے کہ بنو ہاشم نے آڑے وقتوں میں اسلام کی بہت حد تک حمایت اور مدد کی تھی اور اس لیے بھی کہ ان لوگوں کے لیے زکوٰۃ کا مال لینا ممنوع قرار دیا گیا تھا اور چوتھا اور پانچواں مصرف محتاجوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا حصہ ختم ہوا اور باقی صرف تین مصرف رہ گئے اور بعض کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ موجودہ امیر المومنین کو اور قرابت داروں کا حصہ خاندان نبوت کے محتاجوں کے لیے ہے۔ کیونکہ زکوٰۃ لینا ان کے لیے ممنوع ہے اور ہمارے خیال میں معاملہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حالات میں بہت تغیر رونما ہوچکا ہے اور اسی لحاظ سے ان مسائل میں بھی شوریٰ کے فیصلہ کے مطابق تبدیلی ہوگی۔ مثلاً دور نبو صلی اللہ علیہ وسلم ی میں صحابہ رضاکارانہ یا فرض سمجھ کر جہاد پر نکلتے، سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام خود کرتے تھے جس کے عوض انہیں حصہ ملتا تھا مگر آج فوج کا محکمہ ہی الگ ہوتا ہے اور اس کی ابتدا دور فاروقی سے ہی ہوگئی تھی۔ یہ فوجی یا مجاہدین تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ اسلحہ اور سواری کا اہتمام حکومت کے ذمہ ہوتا ہے۔ لہذا اب عام مسلمانوں پر جہاد فرض نہ رہا اور تنخواہ کی وجہ سے مجاہدین میں ایسی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔ امیر کے حصہ کا بھی کیونکہ وہ خود سرکاری خزانہ کا تنخواہ دار ہوتا ہے اور فقراء وغیرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی ایک اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جنگوں کے طریق کار کا نقشہ یکسر بدل چکا ہے۔ بنو ہاشم کے لئے صدقات کی حرمت کے متعلق اجتہاد کی ضرورت :۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اموال غنیمت کی تقسیم میں ایسی تبدیلی کی وجہ سے بنو ہاشم کے محتاجوں کی امداد کا مسئلہ ختم ہوگیا اور صدقات بالخصوص زکوٰۃ ویسے ہی ان کے لیے ممنوع ہے تو بنو ہاشم کے محتاجوں کی امداد کی آج کیا صورت ہو سکتی ہے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ کسی ملک میں اسلامی نظام بھی قائم نہ ہو؟ بعض علماء کے نزدیک صدقات و زکوٰۃ کی بنو ہاشم کے لیے ممانعت کی وجہ یہ تھی کہ صدقات و زکوٰۃ کی تقسیم بحیثیت قائد ملت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات اپنے خاندان کے لیے حرام قرار دیئے تھے۔ پھر بھی منافق لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقات کی تقسیم میں الزام لگاتے رہے۔ لہٰذا آج ان صدقات کی ممانعت کا حکم مسلمانوں کے امیر اور اس کے خاندان کے لیے ہوگا۔ اسی طرح جو لوگ آج کل بنو ہاشم کی اولاد یا سید کہلاتے ہیں ان کے لیے صدقات و زکوٰۃ کی حرمت بھی ختم ہوجانی چاہیے۔ لہذا ان مسائل میں اجتہاد کرنا ضروری ہے کہ موجودہ دور میں بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کی اولاد دنیا کے کس کس ملک میں پائی جاتی ہے اور ان کے محتاجوں کی امداد کس ذریعہ سے ممکن ہے۔ [٤٣۔ الف] غزوہ بدر یوم الفرقان کیسے تھا ؟:۔ یہ یوم الفرقان اس لحاظ سے تھا کہ اس معرکہ نے یہ فیصلہ کردیا تھا کہ حق کس فریق کے ساتھ ہے اور باطل پر کونسا فریق ہے اور یہ جمعۃ المبارک کا دن ١٧ رمضان المبارک ٢ ھ تھا اور جمعہ کا دن تھا۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیا نازل کیا تھا ؟ تو اس سے مراد بارش بھی ہو سکتی ہے اور فرشتے بھی اور تائید الٰہی کی دوسری صورتیں بھی جن میں اکثر کا ذکر گزر چکا ہے اور کچھ آگے مذکور ہیں اور سب چیزیں اور اسباب اس لیے پیدا ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے ظاہری اور باطنی اسباب پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص نزول ملائکہ یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ریت یا مٹی پھینکنے سے کافروں کے اندھا ہونے کو یا ایسے ہی دوسرے خوارق کو تسلیم نہیں کرتا یا ان کی تاویل کرتا ہے وہ اللہ پر پوری طرح ایمان نہیں رکھتا۔