ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَمَن يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے تو بے شک اللہ بہت سخت عذاب والا ہے۔
[١٤] کفار مکہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیفیں پہنچانا اور آپ کی بددعا :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس طرح کی ایذائیں پہنچائی جاتی تھیں ان کا ایک نمونہ درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابو جہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے وہ آپس میں کہنے لگے کہ ’’تم میں سے کون جاتا ہے اور فلاں لوگوں نے جو اونٹنی کاٹی ہے اس کا بچہ دان لا کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سجدہ کرے تو اس کی پیٹھ پر رکھ دیتا ہے؟‘‘ یہ سن کر ان کا بدبخت ترین (عقبہ بن ابی معیط) اٹھا اور بچہ دان اٹھا لایا اور دیکھتا رہا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں گئے تو بچہ دان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان میں پیٹھ پر رکھ دیا۔ میں خود یہ دیکھ رہا تھا، لیکن کچھ نہ کرسکتا تھا۔ کاش (اس دن) میرا کچھ زور ہوتا۔ کافر ہنستے اور ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں ہی پڑے رہے اور سر نہیں اٹھا سکتے تھے حتیٰ کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی) فاطمہ آئیں اور بچہ دان کو پیٹھ سے اٹھا کر پرے پھینکا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور دعا کی : ’’یا اللہ قریش سے نمٹ لے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ الفاظ دہرائے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بد دعا کر رہے تھے تو کافروں پر گراں گزرا۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے لے کر بددعا کی کہ یا اللہ! ابو جہل سے نمٹ لے اور عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط سے نمٹ لے اور عمرو بن میمون نے ساتویں شخص (عمارہ بن ولید) کا نام بھی لیا جو ہمیں یاد نہ رہا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جن لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر بددعا کی تھی، میں نے دیکھا کہ ان سب کی لاشیں بدر کے کنویں میں پھینکی گئیں۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب، اذا القی علی ظھر المصلی القذرًا اوجیفۃ۔۔)