لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ
تاکہ وہ حق کو سچا کر دے اور باطل کو جھوٹا کر دے، خواہ مجرم ناپسند ہی کریں۔
[٩] جو مسلمان تجارتی قافلہ پر حملہ کی غرض سے نکلے تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ اب ہم تین سو تیرہ نہتے آدمیوں کو شاید کفار کے ایک ہزار مسلح لشکر سے جنگ کرنا پڑے۔ تو ان میں سے کچھ لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار گزری۔ موت انہیں منہ کھولے سامنے نظر آنے لگی۔ ان کا تقاضا یہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو گروہوں (تجارتی قافلہ پر یا کفار کے لشکر پر فتح) میں سے ایک کا وعدہ کیا ہے تو پھر ہمیں تجارتی قافلہ کا رخ کرنا چاہیے جو غیر مسلح ہے اور آدمی بھی تھوڑے ہیں اور مال بھی بہت ہاتھ آئے گا مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کچھ اور تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی کفار سے معرکہ کو ہی درست قرار دیتے تھے۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی مشورہ کرنا ضروری سمجھا بالخصوص انصار سے، کیونکہ انصار اپنے معاہدہ کی رو سے اس بات کے تو پابند تھے کہ اگر مدینہ پر کفار کا حملہ ہو تو وہ آپ کا ساتھ دیں گے۔ مگر یہ حملہ مدینہ پر نہیں تھا۔ لہٰذا ان انصار سے مشورہ ضروری تھا۔ اس مشورہ کی روداد درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے۔ جنگ کے متعلق مشورہ اور انصار کا جواب :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابو سفیان کے نکل جانے کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض فرمایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بات کی تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض کیا۔ پھر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کا اشارہ شاید ہماری طرف ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر آپ ہمیں سمندر میں کودنے کا حکم دیں گے تو ہم کود جائیں گے اور اگر آپ ہمیں برک الغماد تک گھوڑے دوڑا دوڑا کر ہلاک کر ڈالنے کا حکم دیں تو ہم تعمیل کریں گے۔‘‘ (مسلم، کتاب الجہاد، باب غزوہ بدر) اور مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ہم وہ بات نہیں کہیں گے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ تم اور تمہارا پروردگار دونوں جا کر لڑو، ہم تو آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی۔‘‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ چمکنے لگا اور ان کے اس قول نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کردیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب اذ تستغیثون ربکم ) معرکہ حق وباطل :۔ چنانچہ اس مشورہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے مسلح لشکر کی طرف بڑھنے کا ارادہ کرلیا اور اللہ کی بھی یہی مشیت تھی کہ حق و باطل میں فیصلہ کن معرکہ ہو اور اس طرح مسلمانوں کو پوری طرح جانچنے کے بعد کامیابی سے ہمکنار کرے اور اپنا وعدہ پورا کرے۔ دوسری طرف ابو جہل کی ضد کافروں کو مقابلے کے میدان میں گھسیٹ کرلے آئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ جس طرح حق و باطل کے معرکہ میں کفر کا سر توڑنا چاہتے تھے، اس کے اسباب پیدا ہوگئے۔ اموال غنیمت کے متعلق فیصلہ سنانے اور سچے مومنوں کی علامات بتلانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیت نمبر ٥ اور ٦ میں فرمایا ؟؟؟$کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْۢ بَیْتِکَ بالْحَقِّ ۠ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِہُوْنَ؟؟؟ یعنی جس طرح بعض اموال غنیمت لوٹنے والوں کو اللہ کا فیصلہ ان کی طبائع پر ناگوار گزرا۔ اسی طرح یہ بات بھی بعض مسلمانوں کو ناگوار گزری کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر سے حق و باطل کا معرکہ بپا کرنے، حق کو غالب اور سر بلند کرنے اور باطل کا سر کچلنے کے لیے نکالا تھا، تجارتی قافلہ کو لوٹنے کے لیے نہیں نکالا تھا اور یہی بات بعض مسلمانوں کو اتنی ناگوار تھی کہ وہ لڑائی کو موت کے منہ میں جانے کے مترادف سمجھ رہے تھے اور ان کا جھگڑا اسی حق و باطل کی جنگ کے سلسلہ میں تھا وہ کہتے تھے کہ جب اللہ نے ہم سے دو باتوں میں سے کسی ایک کا وعدہ کر رکھا ہے تو آخر ہم لڑائی ہی کی راہ کیوں اختیار کریں اور کیوں نہ تجارتی قافلے کا تعاقب کریں۔