وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ
اور اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی سے اور خوف سے اور بلند آواز کے بغیر الفاظ سے صبح و شام یاد کر اور غافلوں سے نہ ہو۔
[٢٠٣] تلاوت قرآن کے آداب :۔ صبح و شام سے مراد یہ دونوں مخصوص وقت بھی ہو سکتے ہیں اور صبح و شام کی نمازیں بھی اور صبح و شام بطور محاورہ استعمال ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر وقت اللہ کو یاد کرتے رہنا یا دل میں اس کی یاد رکھنا چاہیے۔ اسی طرح ذکر سے مراد قرآن کریم کی تلاوت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ سب سے بڑا ذکر تو خود قرآن کریم ہے اور نمازیں بھی ہو سکتی ہیں جن میں اللہ کو یاد کیا جاتا ہے اور ہر وقت دل میں یاد رکھنا بھی مراد ہوسکتا ہے اور جس ذکر میں دل اور زبان دونوں مشغول ہوں تو دل میں عاجزی اور خضوع ہونا چاہیے اور آواز پست ہونا چاہیے خواہ یہ ذکر جہراً ہی کیا جا رہا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا یہی تقاضا ہے۔ [٢٠٤] سب سے بڑی غفلت تو یہی ہے کہ انسان یہ بھول جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اس دنیا میں جو دارالامتحان ہے اسے اللہ کا بندہ بن کر ہی رہنا چاہیے۔ نیز یہ بھول جائے کہ آخرت میں اس کے سب اعمال پر جواب طلبی اور مواخذہ ہوگا۔ دنیا میں جب بھی کوئی فتنہ و فساد پیدا ہوا ہے تو اسی قسم کی غفلت سے پیدا ہوا ہے اسی لیے مسلمانوں کو بار بار تاکید کی جا رہی ہے کہ انہیں کسی وقت بھی ایسی غفلت میں نہ رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنا چاہیے جو اس غفلت کا صحیح علاج ہے۔